Chapter No: 11
باب مَا ذُكِرَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَكُنْ لَهُ بَوَّابٌ
It is mentioned that there was no gatekeeper for the Prophet (s.a.w)
باب :نبی ﷺ کا کوئی دربان نہ تھا ۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، يَقُولُ لاِمْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ تَعْرِفِينَ فُلاَنَةَ قَالَتْ نَعَمْ. قَالَ فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم مَرَّ بِهَا وَهْىَ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ " اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي ". فَقَالَتْ إِلَيْكَ عَنِّي، فَإِنَّكَ خِلْوٌ مِنْ مُصِيبَتِي. قَالَ فَجَاوَزَهَا وَمَضَى فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ فَقَالَ مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَتْ مَا عَرَفْتُهُ قَالَ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَجَاءَتْ إِلَى بَابِهِ فَلَمْ تَجِدْ عَلَيْهِ بَوَّابًا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَرَفْتُكَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ الصَّبْرَ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ "
Narrated By Thabit Al-Bunani : Anas bin Malik said to a woman of his family, "Do you know such-and-such a woman?" She replied, "Yes." He said, "The Prophet passed by her while she was weeping over a grave, and he said to her, 'Be afraid of Allah and be patient.' The woman said (to the Prophet). 'Go away from me, for you do not know my calamity.'" Anas added, "The Prophet left her and proceeded. A man passed by her and asked her, 'What has Allah's Apostle said to you?' She replied, 'I did not recognize him.' The man said, 'He was Allah's Apostle."' Anas added, "So that woman came to the gate of the Prophet and she did not find a gate-keeper there, and she said, 'O Allah's Apostle! By Allah. I did not recognize you!' The Prophet said, 'No doubt, patience is at the first stroke of a calamity.'"
ہم سے اسحاق بن منصور کوسج نے بیان کیا کہا ہم کو عبد الصمد بن عبد الوارث نے خبر دی کہا ہم کو شعبہ نے بیا ن کیا ۔کہا ہم سے ثابت بنانی نے انہوں نے انس بن مالکؓ سے انہوں نے اپنی بی بی سے پوچھا کہ تو فلانی عورت کو پہچانتی ہے اس نے کہا ہاں پہچانتی ہوں انسؓ نے کہا نبیﷺ اس پر سے گزرے وہ ایک قبر پر بیٹھی رو رہی تھی آپؐ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۔وہ کہنے لگی اجی جاؤ بھی تم پر مصیبت تھوڑے ہے یہ سن کرآپﷺ آگے بڑھ گئے اس وقت ایک اور شخص (فیصل بن عباس) اُس عورت پر سے گزرے اور پوچھنے لگے رسول اللہﷺ نے تجھ سے کیا فرمایا وہ کہنے لگی میں نے نہیں پہچانا( کہ آپﷺ تھے) میں سمجھی کوئی اور شخص ہیں انہوں نے کہا وہ رسول اللہﷺتھے یہ سن کر وہ عورت آپﷺ کے پاس آئی دیکھا تو آپؐ کے دروازے پر کوئی دربان نہیں ہے کہنے لگی یا رسول اللہ(تقصیر معاف فرمائیے) خدا کی قسم میں نے اس وقت آپؐ کو نہیں پہچانا (اب صبر کرتی ہوں ) آپؐ نے فرمایا صبر تو اسی وقت اجر رکھتا ہے جب صدمہ شروع ہو۔
Chapter No: 12
باب الْحَاكِمِ يَحْكُمُ بِالْقَتْلِ عَلَى مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ دُونَ الإِمَامِ الَّذِي فَوْقَهُ
A governor of (a province etc.) who is under the Imam can sentence to death a person who deserves such a punishment without consulting the Imam.
باب : ماتحت کا حاکم قصاص کاحکم دے سکتا ہے ۔بڑے حاکم سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الذُّهْلِيُّ، حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ، كَانَ يَكُونُ بَيْنَ يَدَىِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرَطِ مِنَ الأَمِيرِ.
Narrated By Anas : Qais bin Sa'd was to the Prophet like a chief police officer to an Amir (chief).
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن عبد اللہ انصاری نے کہا ہم سے والد نے ،انہوں نے ثمامہ سے انہوں نے انسؓ سے انہوں نے کہا قیس بن سعد بن عبادہ نبیﷺ کے سامنے اس طرح رہا کرتے جیسے کوتوال امیر کے پاس رہا کرتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ قُرَّةَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلاَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَهُ وَأَتْبَعَهُ بِمُعَاذٍ
Narrated By Abu Musa : That the Prophet sent him and sent Mu'adh after him (as rulers to Yemen).
ہم سے مسدّد نے بیان کیا کہا ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے ۔انہوں نے قرّہ سے کہا مجھ کو حمید بن ہلال نے بیان کیا ۔کہا ہم سے ابو بردہؓ نے ۔انہوں نے ابو موسیٰ اشعریؓ سے کہ نبیﷺ نے پہلے ابو موسیٰ کو(یمن کی طرف) بھیجا پھران کے پیچھے ہی معاذ بن جبل کو روانہ کیا
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ رَجُلاً، أَسْلَمَ ثُمَّ تَهَوَّدَ، فَأَتَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَهْوَ عِنْدَ أَبِي مُوسَى فَقَالَ مَا هَذَا قَالَ أَسْلَمَ ثُمَّ تَهَوَّدَ. قَالَ لاَ أَجْلِسُ حَتَّى أَقْتُلَهُ، قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Abu Musa : A man embraced Islam and then reverted back to Judaism. Mu'adh bin Jabal came and saw the man with Abu Musa. Mu'adh asked, "What is wrong with this (man)?" Abu Musa replied, "He embraced Islam and then reverted back to Judaism." Mu'adh said, "I will not sit down unless you kill him (as it is) the verdict of Allah and His Apostle.
(دوسری سند امام بخاری نے کہا) اور مجھ سے عبد اللہ بن صباح نے بیان کیا کہا ہم سے محبوب بن حسن نے کہا ہم سے خالد حذاء نے انہوں نے حمید بن ہلال سے انہوں نے ابو بردہ سے انہوں نے ابو موسٰی اشعریؓ سے (نبیؐ کے زمانہ میں) ایک شخص (نام نامعلوم) مسلمان ہو گیا تھا پھر یہودی ہو گیا وہ شخص ابو موسیٰ کے سامنے لایا گیا اتنے میں معاذ بن جبل آن پہنچے ابو موسیٰ سے پوچھا کیوں اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی اس کی مشکیں بندھی ہوئی تھیں) انہوں نے کہا یہ شخص مسلمان ہونے کے بعد یہودی ہو گیا (مرتد ہو گیا) معاذ نے کہا میں نہیں بیٹھوں گا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے موافق اس کو قتل نہ کر لوں۔
Chapter No: 13
باب هَلْ يَقْضِي الْحَاكِمُ أَوْ يُفْتِي وَهْوَ غَضْبَانُ ؟
Can a judge give a judgement or a formal legal opinion while he is in an angry mood?
باب : غصے کی حالت میں حاکم یا قاضی کو فیصلہ کرنا درست ہے یا قاضی کو فیصلہ کرنا درست ہے یانہیں
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ كَتَبَ أَبُو بَكْرَةَ إِلَى ابْنِهِ وَكَانَ بِسِجِسْتَانَ بِأَنْ لاَ تَقْضِيَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لاَ يَقْضِيَنَّ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهْوَ غَضْبَانُ "
Narrated By 'Abdur Rahman bin Abi Bakra : Abu Bakra wrote to his son who was in Sijistan: 'Do not judge between two persons when you are angry, for I heard the Prophet saying, "A judge should not judge between two persons while he is in an angry mood."
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے کہا، ہم سے عبد الملک بن عمیر نے کہا۔ میں نے عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ سے سنا ۔ابو بکرہ نے اپنے بیٹے ( عبید اللہ ) کو لکھا جو سجستان میں قاضی تھا جس وقت تو غصّے میں ہوتو دو آدمیوں کا فیصلہ نہ کر ۔کیوں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا ۔آپؐ فرماتے تھے کوئی حاکم دو(۲) آدمیوں کا اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک وہ غصہ میں ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ، مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا. قَالَ فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَطُّ أَشَدَّ غَضَبًا فِي مَوْعِظَةٍ مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُوجِزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ "
Narrated By Abu Mas'ud Al-Ansari : A man came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! By Allah, I fail to attend the morning congregational prayer because so-and-so (i.e., Muadh bin Jabal) prolongs the prayer when he leads us for it." I had never seen the Prophet more furious in giving advice than he was on that day. He then said, "O people! some of you make others dislike (good deeds, i.e. prayers etc). So whoever among you leads the people in prayer, he should shorten it because among them there are the old, the weak and the busy (needy having some jobs to do).
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ۔کہا ہم کو عبداللہ ابن مبارک نے خبر دی ۔کہا مجھ کو اسمٰعیل بن ابی خالد نے انہوں نے قیس بن ابی حازم سے انہوں نے ابو مسعود انصاری سے۔انہوں نے کہا ایک شخص (سلیم بن حارث یا کوئی اور) رسول اللہﷺ کے پاس آیا کہنے لگا یا رسول ا للہ خدا کی قسم میں صبح کی جماعت میں اس وجہ سے شریک نہیں ہو سکتا کہ فلاں صاحب (معاذ بن جبل یا ابی بن کعبؓ ) اس نماز کو لمبا کرتے ہیں ابو مسعوڈؓ کہتے ہیں ہم نے کسی وعظ میں نبیﷺ کو اتنا غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس دن غصّے ہوئے بعد اس کے فرمایا لوگو تم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو دین سے نفرت دلانا چاہتے ہیں جب کوئی تم میں لوگوں کا امام بنے تو مختصر نماز پڑھے اس لئے کی ان میں کوئی بوڑھا ہوتا ہے کوئی کمزور کوئی کام ضرورت والا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الْكِرْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَتَغَيَّظَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قَالَ " لِيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لْيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا "
Narrated By 'Abdullah bin 'Umar : That he had divorced his wife during her menses. 'Umar mentioned that to the Prophet. Allah's Apostle became angry and said, "He must take her back (his wife) and keep her with him till she becomes clean from her menses and then to wait till she gets her next period and becomes clean again from it and only then, if he wants to divorce her, he may do so."
ہم سے محمّد بن ابی یعقوب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے حسان بن ابراہیم نے کہا ۔ہم سے یونس بن یزید ایلی نے کہ زہری نے کہا مجھ کو سالم نے خبر دی۔ ان کو ان کے والد عبداللہ بن عمرؓ نے ۔ انہوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو طلاق دے دی ۔حضرت عمرؓ نے اس کا تذکرہ رسول اللہﷺ سے کیا آپؐ غصے ہوئے اور فرمایا عبد اللہ کو چاہئیے کہ رجعت کرلے اور عورت کو اپنے پاس رہنے دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو پھر حیض آئے پھر پاک ہو اب اگر چاہے اس کو طلاق دے دے۔
Chapter No: 14
باب مَنْ رَأَى لِلْقَاضِي أَنْ يَحْكُمَ بِعِلْمِهِ فِي أَمْرِ النَّاسِ إِذَا لَمْ يَخَفِ الظُّنُونَ وَالتُّهَمَةَ
Whosoever thinks that a judge can give judgments for the people according to his knowledge if he is not afraid of being suspected or blamed.
باب : قاضی کو اپنے ذاتی علم کی روسے معاملات میں حکم دینادرست ہے (نہ حدود اور حقوق اللہ میں )
كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِهِنْدَ " خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ ". وَذَلِكَ إِذَا كَانَ أَمْرٌ مَشْهُورٌ.
As the Prophet (s.a.w) said to Hind (bint Utba, the wife of Abu Sufyan), "Take what is reasonably sufficient for you and your children and that is if the case is a well-known matter."
یہ بھی جب کہ بد گمانی اور تہمت کا ڈر نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ نبیﷺ نے ہند(ابو سفیان کی جورو ) کو یہ حکم دیا۔تو ابو سفیان کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہے جو دستور کے موافق تجھ کو اورتیری اولاد کو کافی ہو ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ. ثُمَّ قَالَتْ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَىَّ مِنْ حَرَجٍ أَنْ أُطْعِمَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا قَالَ لَهَا " لاَ حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُطْعِمِيهِمْ مِنْ مَعْرُوفٍ "
Narrated By 'Aisha : Hind bint 'Utba bin Rabia came and said. "O Allah's Apostle! By Allah, there was no family on the surface of the earth, I like to see in degradation more than I did your family, but today there is no family on the surface of the earth whom I like to see honoured more than yours." Hind added, "Abu Sufyan is a miser. Is it sinful of me to feed our children from his property?" The Prophet said, "There is no blame on you if you feed them (thereof) in a just and reasonable manner.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہا ہم سے شعیب نے خبر دی۔انہوں نے زہری سے کہا مُجھ سے عروہ نے بیان کیا حضرت عائشہؓ نے کہا ہند عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی رسول اللہﷺ کے پاس آئی کہنے لگی یا رسول اللہ خدا کی قسم ساری زمین پر کوئی گھر والے ایسے نہیں تھے جن کا میں ذلیل و خوار ہونا اتنا پسند کرتی تھی جتنا آپؐ کے گھر والوں کا ( کیونکہ ہند کے باپ اور عزیزوں کو جنگ بدر میں علیؓ اور حمزہؓ نے قتل کیا تھا) اور اب آج یہ حال ہے کہ ساری زمین پر کسی گھر والوں کو عزت اور آبرو حاصل ہونا مجھ کو اتنا پسند نہیں جتنا آپؐ کے گھر والوں کا ( کیوں کہ میں مسلمان ہو گئی ہوں) پھر کہنے لگی ابو سفیان بہت ہی بخیل آدمی ہے (اس کے دل سے پیسہ نہیں نکلتا) کیا مجھ پر کچھ گناہ ہو گا اگر میں اس کے مال میں سے اس سے پوچھے بغیر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں آپؐ نے فرمایا نہیں کچھ گناہ نہیں ہو گا اگر دستور کے موافق کھلائے
Chapter No: 15
باب الشَّهَادَةِ عَلَى الْخَطِّ الْمَخْتُومِ وَمَا يَجُوزُ مِنْ ذَلِكَ، وَمَا يَضِيقُ عَلَيْهِمْ، وَكِتَابِ الْحَاكِمِ إِلَى عَامِلِهِ، وَالْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي.
To bear witness as to the writer of a stamped letter, and to what extent it is permissible or forbidden to (bear such witness). The letter of a ruler sent to his governor, and similarly of a judge to a judge.
باب : مہری خط پر گواہی دینے کا بیان ۔ (کہ یہ فلاں شخص کاخط ہے ) اور کونسی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے کونسی ناجائز اورحاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے اسی طرح ایک ملک کاقاضی دوسرے ملک کے قاضی ا س کا بیان
وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ كِتَابُ الْحَاكِمِ جَائِزٌ إِلاَّ فِي الْحُدُودِ. ثُمَّ قَالَ إِنْ كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَهْوَ جَائِزٌ، لأَنَّ هَذَا مَالٌ بِزَعْمِهِ وَإِنَّمَا صَارَ مَالاً بَعْدَ أَنْ ثَبَتَ الْقَتْلُ، فَالْخَطَأُ وَالْعَمْدُ وَاحِدٌ. وَقَدْ كَتَبَ عُمَرُ إِلَى عَامِلِهِ فِي الْجَارُودِ. وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي سِنٍّ كُسِرَتْ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ كِتَابُ الْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي جَائِزٌ، إِذَا عَرَفَ الْكِتَابَ وَالْخَاتَمَ. وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُجِيزُ الْكِتَابَ الْمَخْتُومَ بِمَا فِيهِ مِنَ الْقَاضِي. وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ. وَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الثَّقَفِيُّ شَهِدْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ يَعْلَى قَاضِيَ الْبَصْرَةِ وَإِيَاسَ بْنَ مُعَاوِيَةَ وَالْحَسَنَ وَثُمَامَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ وَبِلاَلَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيَّ وَعَامِرَ بْنَ عَبِيدَةَ وَعَبَّادَ بْنَ مَنْصُورٍ يُجِيزُونَ كُتُبَ الْقُضَاةِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ، فَإِنْ قَالَ الَّذِي جِيءَ عَلَيْهِ بِالْكِتَابِ إِنَّهُ زُورٌ. قِيلَ لَهُ اذْهَبْ فَالْتَمِسِ الْمَخْرَجَ مِنْ ذَلِكَ. وَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَلَى كِتَابِ الْقَاضِي الْبَيِّنَةَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى وَسَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ. وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحْرِزٍ جِئْتُ بِكِتَابٍ مِنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ قَاضِي الْبَصْرَةِ، وَأَقَمْتُ عِنْدَهُ الْبَيِّنَةَ أَنَّ لِي عِنْدَ فُلاَنٍ كَذَا وَكَذَا، وَهْوَ بِالْكُوفَةِ، وَجِئْتُ بِهِ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَأَجَازَهُ. وَكَرِهَ الْحَسَنُ وَأَبُو قِلاَبَةَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى يَعْلَمَ مَا فِيهَا، لأَنَّهُ لاَ يَدْرِي لَعَلَّ فِيهَا جَوْرًا. وَقَدْ كَتَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى أَهْلِ خَيْبَرَ " إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ تُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ ". وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي شَهَادَةٍ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ إِنْ عَرَفْتَهَا فَاشْهَدْ، وَإِلاَّ فَلاَ تَشْهَدْ
Some people said, "The letter of a ruler can be relied upon except in cases involving a legal punishment (prescribed by Allah)." The same people then said, "If the case involves an accidental homicide, the letter can be taken into consideration." Because the case becomes one of money in their opinion. But the case becomes on of money only when the homicide is proved. Therefore both an accidental homicide and a premeditated murder are the same (in this respect).
Umar bin Abdul-Aziz wrote (to his governor) regarding the case of a tooth that had been broken. Ibrahim said, "It is permissible to depend on a letter from a judge as long as the latter knows the handwriting and the stamp of the former."
And Ash-Shabi used to make orders according to stamped letters including the ones sent by a judge. Ibn Umar is said to have done so.
Muawiya bin Abdul Karim Ath-Thaqafi said, "I witnessed Abdul-Malik (bin Yala), the judge of Basrah, Ayas bin Muawiya, Al-Hasan, Thumama bin Abdullah bin Anas, Bilal bin Abu Burda, Abdullah bin Buraida Al-Aslami, Amir bin Ubaida and Abbad bin Mansur giving their judgments, depending on the letters of the judges without the presence of witnesses. If the person, against whom the letter is intended, claims that it is false, he is ordered to try and find a way out of it. The first person who asked for witnesses to confirm the letter of the judge was Ibn Abi Laila and Sawar bin Abdullah." And Abu Nuaim said to us, "Ubaidullah bin Muhriz said to us, 'I brought a letter from Musa bin Anas (the judge of Basrah) after I had presented witnesses before him that such and such person who was in Kufa owed me such and such property. I took the latter to Al-Qasim bin Abdur-Rahman (the judge of Kufa) who accepted it (as a valid basis for judgement).'"
Al-Hasan and Abu Qilaba disliked that one be witness in the cases of a will, unless one knew what it contained, for there might be some injustice in it.
The Prophet (s.a.w) wrote to the Khaibar people, "You should either pay the blood-money of your (murdered) companion, otherwise receive our warning of war."
Az-Zuhri said regarding bearing witness as to the identity of a woman staying behind a curtain, "If you know her give witness otherwise don’t give witness."
اور بعضے لوگوں(امام ابو حنیفہؓ)نے کا حاکم جو پردانےاپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہو سکتا ہے مگر حدودشرعیہ میں نہیں ہو سکتا (کیونکہ ڈر ہے کہیں پرواہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہو سکتا کیونکہ وہ ان کی رائے پرمثل مالی دعووں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعووں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبو ت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطااور عمد دونوں کا حکم ایک ہونا چائیے (دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چائیے اور حضرت عمرؓ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانےلکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اورابراہیم نخعی نےکہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کرے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تویہ جا ئزہے اور شعبی مہری خط کو جوایک قاضی کی طرف سے آ ئے جائز رکھتے تھے (اس کوابن ابی شیبہ نے نکالا ) اور عبداللہ بن عمرؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلی (بصرے کے قا ضی )اور ایاس بن معاویہ (بصرے کے قاضی )اور حسن بصری(بصرے کے قاضی )اور ثمامہ بن عبداللہ بن انسؓ (بصرے کے قاضی) اور بلال بن ابی بردہ (بصرے کے قاضی)اور عبداللہ بن بریدہ(مرد کے قاضی ) اور عامر بن عبیدہ(کوفہ کے قاضی ) اور عباد بن منصور (بصرے کے قاضی ) ان سبھوں سے ملا ہوں یہ سب ایک قاضی کاخط دوسرے قاضی کے نام بغیرگواہوں کے منظور کر تےاگرفریق ثانی جس کو اس خط سے ضرور ہوتا ہے یوں کہے کہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گےکہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلے (کوفہ کےقاضی ) اور سوار بن عبداللہ(بصرے کے قاضی ) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابو نعیم (فضل بن دکین) نےکہا ہم سے عبید اللہ بن محرزنے بیان کیاکہ کہ میں نے موسیٰ بن انسؓ بصرے کے قاضی کےپاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کاخط لےکر قاسم بن الرحمن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابو قلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکرو ہ ہے جب تک اس کے مضمون کو نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو اور نبیﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا (یہ حدیث کتاب القسامۃ میں موصلاً گزر چکی ہے)یا تو اس شخص کی (یعنی عبداللہ بن سہل) کی دیت دوجوتمہار ی بستی میں مارا گیا ورنہ جنگ کے لیے مستعد ہو جاؤ اور زہری نے(اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا) کہا اگر عورت پردے کی آر میں ہو اور تو اس کو پہچانتا ہو ( آواز وغیرہ سے) جب تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ قَالُوا إِنَّهُمْ لاَ يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلاَّ مَخْتُومًا. فَاتَّخَذَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِهِ، وَنَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.
Narrated By Anas bin Malik : When the Prophet intended to write to the Byzantines, the people said, "They do not read a letter unless it is sealed (stamped)." Therefore the Prophet took a silver ring... as if I am looking at its glitter now... and its engraving was: "Muhammad, Apostle of Allah."
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ۔کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے کہا میں نے قتادہ سے سنا۔ انہوں نے انس بن مالکؒ سے انہوں نے کہا( جب ۶ ہجری میں) نبیﷺ نے روم والوں کو پروانہ لکھنا چاہا تو صحابہ کرامؓ کہنے لگے روم والے اسی خط کو پڑھتے ہیں (قابل اعتماد سمجھتے ہیں) جس پر مہر لگی ہو نبیﷺ نے یہ سن کر چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس وقت اس کی چمک دیکھ رہا ہوں اس کا کندہ یہ تھا محمّد رسول اللہ۔
Chapter No: 16
باب مَتَى يَسْتَوْجِبُ الرَّجُلُ الْقَضَاءَ
When is a man entitled to be a judge?
باب : قاضی بننے کے لیے کیا کیا شرطیں ہونا ضرور ہیں۔
وَقَالَ الْحَسَنُ أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْحُكَّامِ أَنْ لاَ يَتَّبِعُوا الْهَوَى، وَلاَ يَخْشَوُا النَّاسَ {وَلاَ تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلاً} ثُمَّ قَرَأَ {يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ}، وَقَرَأَ {إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا ـ اسْتُودِعُوا ـ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلاً وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ}، وَقَرَأَ {وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ * فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلاًّ آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا}، فَحَمِدَ سُلَيْمَانَ وَلَمْ يَلُمْ دَاوُدَ، وَلَوْلاَ مَا ذَكَرَ اللَّهُ مِنْ أَمْرِ هَذَيْنِ لَرَأَيْتُ أَنَّ الْقُضَاةَ هَلَكُوا، فَإِنَّهُ أَثْنَى عَلَى هَذَا بِعِلْمِهِ وَعَذَرَ هَذَا بِاجْتِهَادِهِ. وَقَالَ مُزَاحِمُ بْنُ زُفَرَ قَالَ لَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ خَمْسٌ إِذَا أَخْطَأَ الْقَاضِي مِنْهُنَّ خَصْلَةً كَانَتْ فِيهِ وَصْمَةٌ أَنْ يَكُونَ فَهِمًا، حَلِيمًا، عَفِيفًا، صَلِيبًا، عَالِمًا سَئُولاً عَنِ الْعِلْمِ.
And Al-Hasan said, "Allah has enjoined an obligation on all the rulers that they should not follow the lust of their hearts and should not be afraid of the people and should not sell Allah's Ayat for a low price." Al-Hasan then recited Allah's Ayat, "O Dawud (David)! Verily! We have placed you as a successor on earth so, so judge you between men in truth (and justice) and follow not our desire for it will mislead you from the Path of Allah. Verily! Those who wander astray from the Path of Allah (shall) have a severe torment, because they forget the day of reckoning." (V.38:26) And then he recited, "Verily! We did send down the Torah (to Moses), therein was guidance and light, by which the Prophets, who submitted themselves to Allah's Will, judged for the Jews. And the rabbis and the priests (too judged), for to them was entrusted the protection of Allah's book, and they were witness thereto. Therefore, fear not men but fear Me and sell not My Ayat for a miserable price. And whosoever does not judge by what Allah has revealed, (then) such are the disbelievers ..." (V.5:44) And then he recited the Ayat, "And (remember) Dawud (David) and Sulaiman (Solomon), when they gave judgement in the case of the field in which the sheep of certain people had pastured at night and We were witness to their judgment. And we made Sulaiman to understand (the case), and to each of them We gave Hukm (right judgements of the affairs and Prophethood), and knowledge ..." (V.21:78,79)
Hasan added, "Allah praised Sulaiman and did not blame Dawud for his mistake. And if Allah had not mentioned the case of these two persons you would have seen all the judges destroyed, but Allah praised one for his knowledge and excuses the other because he judged by what he had thought to be the fairest."
Muzahim bin Zufar said, "Umar bin Abdul-Aziz said to us, 'There are five qualities (which a judge should possess), and if he does not have one of them then he has one defect and those qualities are that He must be an intelligent, patient, honest, stern and a learned religious scholar and knowledge seeking.'"
اور امام حسن بصری نے کہا ( اس کو نعیم نے حلیقہ الاولیاء میں وصل کیا) اللہ تعالیٰ نے حاکموں سے یہ عہد لیا ( ان پر لازم کیا ہے) کہ خواہش نفس کی پیروی نہ کریں اور لوگوں کا ڈر نہ رکھیں (کہ حق فیصلہ کرنے سے کوئی ناراض ہو جائے گا ہو جائے پیزار سے) اور اس کی آیتوں کے بدل (دنیا کا) تھوڑا مول نہ لیں پھر انہوں نے یہ آیت (سورۃ صٓ) پڑھی۔ داؤدؑ ہم نے تجھ کو زمین کا حاکم بنایا تو انصاف کے ساتھ لوگوں کا فیصلہ کیا کراور نفس کی خواہش پر نہ چل ۔ نفس کی خواہش تجھ کو خدا کے ٹھیک رستے سے ڈگا دے گی جو لوگ اللہ کی راہ (حق اور انصاف سے (ڈگ) بہک جاتے ہیں ان کو بدلے اور حساب کا دن بھول جانے کی وجہ سے سخت سزا ملے گی اور امام حسن بصری نے (سورۃ مائدہ کی یہ آیت بھی پڑھی) بے شک ہم نے توریت اتاری اس میں ہدایت ہے اور روشنی خدا کے تابعدارپیغمبر جو موسیٰؑ کے بعد بنی اسرائیل میں آئےیہودیوں کو اسی کے موافق حکم دیتے رہے اور پیغمبروں کے علاوہ مشائخ اور مولوی بھی اسی پر حکم دیتے رہے اس لیے کہ اللہ کی کتاب کے وہ نگہبان اور امانت دار بنائے گئے تھے اس کی نگہبانی کرتے رہے تو یہودیو دیکھ لوگوں سے مت ڈر مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدل دنیا کا تھوڑا مول مت لو (یعنی رشوت کھا کر خلاف شرع فیصلہ نہ کرو) اور جو لوگ اللہ کے اتارے موافق حکم نہ دیں وہی کافر ہیں اور امام حسن بصری نے (سورۃ انبیاء کی یہ آیت بھی پڑھی اور اے پیغمبر داؤدؑ اور سلیمانؑ کو یاد کر جب دونوں ایک کھیت یا باغ کا فیصلہ کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت چر رہی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے پھر ہم نے اس مقدمہ کا ٹھیک فیصلہ سلمان کو سمجھا دیا اور ہم نے ہر ایک کو داؤدؑ اور سلیمانؑ دونوں میں فیصلہ کرنے کی سمجھ دی تھی اور علم دیا تھا تو اللہ نے سلیمانؑ کی تعریف کی اور داؤدؑ پر بھی ملامت نہیں کی (گو ان کا فیصلہ ٹھیک نہ تھا) اور اگر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ ان دونوں پیغمبروں کا ذکر نہ کرتا تو میں سمجھتا ہوں ۔ قاضی لوگ تباہ ہوجاتے مگر اللہ تعالیٰ نے کیا کیا کہ الیمانؑ کی تعریف کی اور داؤدؑ کو اُن کی خطا اجتہادی میں معذور رکھا اور مزاحم بن زُفر نے کہا ( اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا) ہم سے عمر بن عبد العزیز خلیفہ نے کہا قاضی کے لئے پانچ باتیں ضرور ہیں اگر ان میں سے ایک باے بھی نہ ہو تو وہ عیب دار ہے سمجھ والا ہو (قرآن و حدیث میں فہم سلیم رکھتا ہو) دوسرے بردبار ہو (غصیلا نہ ہو) تیسرے حرام کاموں اور بدکاری سے پاک ہو (یعنی متقی پرہیزگار ہو) چوتھے انصاف اور حق پر پکا اور مضبوط ہو پانچویں عالم ہو اور علم کی باتیں (دوسرے عالموں سے بھی) خوب تحقیق کرتا رہے۔
Chapter No: 17
باب رِزْقِ الْحُكَّامِ وَالْعَامِلِينِ عَلَيْهَا
The salaries of rulers and those employed to administer the funds.
باب : حاکموں اور عاملوں کو تنخواہ لینا درست ہے
وَكَانَ شُرَيْحٌ الْقَاضِي يَأْخُذُ عَلَى الْقَضَاءِ أَجْرًا. وَقَالَتْ عَائِشَةُ يَأْكُلُ الْوَصِيُّ بِقَدْرِ عُمَالَتِهِ، وَأَكَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ.
Shuraih, the judge, used to take a salary for his working as a judge.
Aisha (r.a) said, "A guardian can take (an orphan's wealth) in a reasonable and just manner according to his efforts. Abu Bakr and Umar (r.a) took salaries (for their jobs as caliphs)."
اور شریح (کوفہ کے قاضی) جو حضرت عمرؓ کی طرف سے مقرر ہوئے تھے قضا کی تنخواہ لیتے تھے اور حضرت عائشہؓ نے کہا جو شخص میت کا وصی ہو وہ اپنی محنت کے موافق یتیم کے مال میں سے کھا سکتا ہے اور ابو بکر ؓ اور عمرؓ نے بھی بیت المال میں سے تنخواہ لی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ابْنُ أُخْتِ، نَمِرٍ أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَدِمَ عَلَى عُمَرَ فِي خِلاَفَتِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالاً، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ كَرِهْتَهَا. فَقُلْتُ بَلَى. فَقَالَ عُمَرُ مَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ قُلْتُ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا، وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأَرِيدُ أَنْ تَكُونَ عُمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ. قَالَ عُمَرُ لاَ تَفْعَلْ فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي. حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالاً فَقُلْتُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلاَّ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ "
Narrated By 'Abdullah bin As-Sa'di : That when he went to 'Umar during his Caliphate. 'Umar said to him, "Haven't I been told that you do certain jobs for the people but when you are given payment you refuse to take it?" 'Abdullah added: I said, "Yes." 'Umar said, "Why do you do so?" I said, "I have horses and slaves and I am living in prosperity and I wish that my payment should be kept as a charitable gift for the Muslims." 'Umar said, "Do not do so, for I intended to do the same as you do. Allah's Apostles used to give me gifts and I used to say to him, 'Give it to a more needy one than me.' Once he gave me some money and I said, 'Give it to a more needy person than me,' whereupon the Prophet said, 'Take it and keep it in your possession and then give it in charity. Take what ever comes to you of this money if you are not keen to have it and not asking for it; otherwise (i.e., if it does not come to you) do not seek to have it yourself.'"
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ۔انہوں نے زہری سے کہا مجھ سائب بن یزید نمر کے بھانجے نے اُن کو حولطیب بن عبد العزٰی نے ان کو عبد اللہ بن سعدی نے وہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں ان کے پاس آئے حضرت عمرؓ نے کہا میں نے سنا ہے تو عام لوگوں کے کاموں میں سے (جیسے تحصیلداری قضاءت وغیرہ) ایک خدمت بجا لاتا ہے جب اس کی تنخواہ تجھ کو دی جاتی ہے تو اس کا لینا برا جانتا ہے عبد اللہ بن سعدی نے کہا ہاں یہ بات سچ ہے حضرت عمرؓ نے کہا پھر اس سے تیرا مطلب کیا ہے عبد اللہ نے کہا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو گھوڑی غلام لونڈی (سب طرح کے مال سے) عنایت فرمایا ہے میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خدمت بجا لاؤں حضرت عمرؓ نے کہا نہیں ایسا مت کریں میں نے بھی رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ایسا ہی کرنا چاہا تھا (کہ اپنی خدمت کا اجر نہ لوں) نبیﷺ مجھ کو دے رہے تھے میں کہہ رہا تھا یہ روپیہ آپ اس کو کیوں نہیں دیتے جو مجھ سے زیادہ اس کی احتیاج رکھتا ہے ایک بار ایسا ہوا کہ نبیؐ نے (ایک خدمت کے بدل) مجھ کو کچھ روپیہ دینا چاہا ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کو دیجئے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو آپؐ نے فرمایا نہیں لے لے مالدار بن جا ( پھر تیرا جی چاہے تو )فقیروں کو خیرات کر دے اور دیکھ جو مال تیرے پاس( اللہ کابھیجا ہوا ) آجائے تو نے اس کی تاک نہ لگائی ہو نہ سوال کیا ہو تو اس کو لے لے اور جو مال اسی طرح نہ آئے اس کے پیچھے نہ پڑ ۔
وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي. حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالاً فَقُلْتُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لاَ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ "
Narrated 'Abdullah bin 'Umar: I have heard 'Umar saying, "The Prophet used to give me some money (grant) and I would say (to him), 'Give it to a more needy one than me.' Once he gave me some money and I said, 'Give it to a more needy one than me.' The Prophet said (to me), 'Take it and keep it in your possession and then give it in charity. Take whatever comes to you of this money while you are not keen to have it and not asking for it; take it, but you should not seek to have what you are not given.'"
(اور اسی سند) سے زہری سے مروی ہے کہا مجھ سے سالم بن عبد اللہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرؓ نے کہا میں نے حضرت عمرؓ سے سنا وہ کہتے تھے نبیﷺ مجھ کو کچھ عنایت فرماتے تو میں کہتا اس کو دیجئے نا جو مجھ سے بڑھ کر محتاج ہے ایک بار آپؐ نے مجھ کو کچھ روپیہ دیا ۔میں نے عرض کیا اس کو دیجئے جو مجھ سے زیادہ احتیاج رکھتا ہے آپؐ نے فرمایا لے لے اور مالدار بن جا اور پھر اگر تجھ کو احتیاج نہیں ہے( تو خیرات کردے) دنیا کا مال جو بن تیرے مانگے تیرے پاس آئے وہ لے لے اور جو( اسی طرح ) نہ آئےاس کے پیچھے مت لگ۔
Chapter No: 18
باب مَنْ قَضَى وَلاَعَنَ فِي الْمَسْجِدِ
Whoever gave judgements of Lian in the masjid. (Lian means oath taken by husband to claim that his wife had committed illegal sexual intercourse but the wife denied it)
باب : جو شخص مسجد میں فیصلہ کرے یا لعان کرائے
وَلاَعَنَ عُمَرُ عِنْدَ مِنْبَرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم. وَقَضَى شُرَيْحٌ وَالشَّعْبِيُّ وَيَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ فِي الْمَسْجِدِ، وَقَضَى مَرْوَانُ عَلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ بِالْيَمِينِ عِنْدَ الْمِنْبَرِ. وَكَانَ الْحَسَنُ وَزُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى يَقْضِيَانِ فِي الرَّحَبَةِ خَارِجًا مِنَ الْمَسْجِدِ
And Umar passed the judgement of Lian near the pulpit of the Prophet (s.a.w). Shuraih Ash-Shabi and Yahya bin Yamar passed judgements in the masjid. And Marwan passed the judgement that Zaid bin Thabit should take an oath near the pulpit. Al-Hasan and Zurara bin Aufa used to pass judgements in the open space outside the masjid.
اور حضرت عمرؓ نے نبیﷺ کے منبر کے پاس لعان کرایا اور شریح قاضی اور شعبی اور یحییٰ بن یعمر نے مسجد میں قضا کا کام اور مروان نے زید بن ثابت کو مسجد میں منبر نبوی کے پاس قسم کھانے کا حکم دیا اور امام حسن بصری اور زرارہ بن اوفی دونوں مسجد کے باہر ایک دالان میں بیٹھ کر قضا کا کام کیا کرتے (ابن ابی شیبہ روایت میں ہے عین مسجد میں)۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ شَهِدْتُ الْمُتَلاَعِنَيْنِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ، عَشْرَةَ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا
Narrated By Sahl bin Sa'd : I witnessed a husband and a wife who were involved in a case of Lian. Then (the judgment of) divorce was passed. I was fifteen years of age, at that time.
ہم سے علی بن عبداللہ نے روایت کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہ زہری نے سہل بن سعد سے روایت کی میں اس وقت موجود تھا جب بیوی خاوند دونوں نے لعان کیا اس وقت میری عمر پندرہ برس کی تھی پھر(لعان کے بعد) دونوں میں جدائی کر دی گئی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلٍ، أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ أَنَّ رَجُلاً، مِنَ الأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، أَيَقْتُلُهُ فَتَلاَعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ.
Narrated By Sahl : (The brother of Bani Sa'ida) A man from the Ansar came to the Prophet and said, "If a man finds another man sleeping with his wife, should he kill him?" That man and his wife then did Lian in the mosque while I was present.
ہم سے یحیٰی بن جعفر بیکندی نے بیان کیا کہا ہم سے عبد الرزاق بن ہمام نے کہا مجھ کو ابن جریج نے خبر دی کہا مجھ کو ابن شہاب نے انہوں نے سہل بن سعد سے جو بنی ساعدہ قبیلے کے ایک شخص تھے انہوں نے کہا ایک انصاری مرد (عویمر) نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا بتلائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو(برا کام کرتے) پائے تو کیا کرے اس کو مار ڈالے ؟پھر (ایسا ہوا) کہ عویمر اور اس کی بیوی دونوں نے مسجد کے اندر لعان کیا اس وقت میں موجود تھا۔
Chapter No: 19
باب مَنْ حَكَمَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى إِذَا أَتَى عَلَى حَدٍّ أَمَرَ أَنْ يُخْرَجَ مِنَ الْمَسْجِدِ فَيُقَامَ
Whoever passed a judgement in the masjid and when the actual legal punishment was to be put to action, he ordered the guilty person to be taken outside the masjid so that the punishment could be carried out.
باب : حد کا مقدمہ مسجد میں سننا پھر جب حد لگانے کا وقت آئے تو مجرم کو مسجد کے باہر لے جانا
وَقَالَ عُمَرُ أَخْرِجَاهُ مِنَ الْمَسْجِدِ. وَضَرَبَهُ. وَيُذْكَرُ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوُهُ
Umar said (to two men), "Take him (the criminal) out of the masjid." Then he beat him. It is said that Ali said the same.
اور حضرت عمرؓ نے فرمایا اس مجرم کو مسجد سے باہر لے جاؤ ( اور حد لگاؤ) اس کو ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے وصل کیا۔اور حضرت علیؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ فِي الْمَسْجِدِ فَنَادَاهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي زَنَيْتُ. فَأَعْرَضَ عَنْهُ. فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعًا قَالَ " أَبِكَ جُنُونٌ ". قَالَ لاَ. قَالَ " اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ "
Narrated By Abu Huraira : A man came to Allah's Apostle while he was in the mosque, and called him, saying, "O Allah's Apostle! I have committed illegal sexual intercourse." The Prophet turned his face to the other side, but when the man gave four witnesses against himself, the Prophet said to him, "Are you mad?" The man said, "No." So the Prophet said (to his companions), "Take him away and stone him to death."
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے عقیل سے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے ابو سلمہ اور سعید بن مسیب سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے انہوں نے کہا ایک شخص (ماعز اسلمی) رسول اللہﷺ کے پاس آیا اس وقت آپؐ مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ۔آپؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور (وہ دوسری طرف سے آیا اور یہی کہا ) جب چار بار اس نے اقرار کیا تو آپؐ نے اس سے پوچھا کہیں تو دیوانہ تو نہیں ہے اس نے کہا جی نہیں(میں خاصا چنگا سیانا ہوں) اس وقت آۡپؐ نے صحابہ سے فرمایا اس کو (باہر) لے جاؤ اور سنگسار کرو ۔
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي مَنْ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ بِالْمُصَلَّى. رَوَاهُ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي الرَّجْمِ
[H.7167 contd] Narrated Jabir bin Abdullah: “I was one of those who stoned him at Musalla in Al-Madina. (See Hadith No.5272).
ابن شہاب نے( اسی سند سے ) کہا مجھ کو اس شخص (ابوسلمہ)نے بیان کیا جس نے جابر بن عبد اللہ انصاریؓ سے سنا وہ کہتے تھے میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اس شخص کو عید گاہ میں سنگسار کیا ۔ اس حدیث کو یونس بن یزید اور معمر اور ابن جریج نے زہری سے انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے جابرؓ سے انہوں نے نبیﷺ سے نقل کیا۔
Chapter No: 20
باب مَوْعِظَةِ الإِمَامِ لِلْخُصُومِ
The advice of the Imam (ruler) to the litigants
باب : حاکم مدعی اور مدعا علیہ کو نصیحت کر سکتا ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَىَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِي نَحْوَ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلاَ يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ "
Narrated By Um Salama : Allah's Apostle said, "I am only a human being, and you people (opponents) come to me with your cases; and it may be that one of you can present his case eloquently in a more convincing way than the other, and I give my verdict according to what I hear. So if ever I judge (by error) and give the right of a brother to his other (brother) then he (the latter) should not take it, for I am giving him only a piece of Fire."
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا انہوں نے امام مالکؓ سے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ سے ،انہوں نے اپنے والد سے ۔انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ سے۔ انہوں نے ام المومنین ام سلمہؓ سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا دیکھو میں بھی آدمی ہوں(لوازم بشیرت سے پاک نہیں ہوں) تم آپس میں جھگڑتے ہوئے میرے پاس آتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے ایک فریق (مدعی یا مدعا علیہ) بحث کرنے میں دوسرے فریق سے زیادہ چالاکی کر دیتا ہے اور میں اس کی بحث سن کر اس کے موافق فیصلہ کر دیتا ہوں (مجھ کو غیب کا علم نہیں ہے) اب اگر میں کسی فریق کو (ظاہری روئداد پر) اس کے بھائی کاکچھ حق دلا دوں تو میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑ ا دلا رہا ہوں۔