حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، وَالأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ فَقَالَ يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ، يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ. فَفَزِعْنَا، فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَغَضِبَ فَجَلَسَ فَقَالَ مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ. فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لاَ يَعْلَمُ لاَ أَعْلَمُ. فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ} وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الإِسْلاَمِ فَدَعَا عَلَيْهِمِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا، وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ "، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ، فَقَرَأَ {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} إِلَى قَوْلِهِ {عَائِدُونَ} أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الآخِرَةِ إِذَا جَاءَ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى} يَوْمَ بَدْرٍ وَلِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ {الم * غُلِبَتِ الرُّومُ} إِلَى {سَيَغْلِبُونَ} وَالرُّومُ قَدْ مَضَى.
Narrated By Masruq : While a man was delivering a speech in the tribe of Kinda, he said, "Smoke will prevail on the Day of Resurrection and will deprive the hypocrites their faculties of hearing and seeing. The believers will be afflicted with something like cold only thereof." That news scared us, so I went to (Abdullah) Ibn Mas'ud while he was reclining (and told him the story) whereupon he became angry, sat up and said, "He who knows a thing can say, it, but if he does not know, he should say, 'Allah knows best,' for it is an aspect of knowledge to say, 'I do not know,' if you do not know a certain thing. Allah said to His prophet. 'Say (O Muhammad): No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor I am one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist.)' (38.86) The Quraish delayed in embracing Islam for a period, so the Prophet invoked evil on them, saying, 'O Allah! Help me against them by sending seven years of (famine) like those of Joseph.' So they were afflicted with such a severe year of famine that they were destroyed therein and ate dead animals and bones. They started seeing something like smoke between the sky and the earth (because of severe hunger). Abu Sufyan then came (to the Prophet) and said, "O Muhammad! You came to order us for to keep good relations with Kith and kin, and your kinsmen have now perished, so please invoke Allah (to relieve them).' Then Ibn Mas'ud recited: 'Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible... but truly you will return! (to disbelief) (44.10-15) Ibn Mas'ud added, Then the punishment was stopped, but truly, they reverted to heathenism (their old way). So Allah (threatened them thus): 'On the day when we shall seize you with a mighty grasp.' (44.16) And that was the day of the Battle of Badr. Allah's saying- "Lizama" (the punishment) refers to the day of Badr Allah's Statement: 'Alif-Lam-Mim, the Romans have been defeated, and they, after their defeat, will be victorious,' (30.1-3) (This verse): Indicates that the defeat of Byzantine has already passed.
مسروق سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت سماعت و بصارت ختم کردے گا لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔ پھر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی) وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے، یہ سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا : اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہئے لیکن اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہئے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کر لے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺسے فرمایا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» آپ کہہ دیجئیے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں سے ہوں۔ اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش نے جب اسلام لانے میں تاخیر کی تو نبی ﷺنے ان کے خلاف بد دعا فرمائی : اے اللہ ! ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دور والے قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ پھر ایسا قحط پڑا کہ اس میں لوگ تباہ ہوئے اور کچھ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوئے ۔ اس دوران میں اگر کوئی آسماں اور زمین کے درمیان فضا میں دیکھتا تو اسے دھواں نظر آتا ، پھر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ آپﷺکے پاس آئے اور عرض کرنے لگے : اے محمد ﷺ! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہورہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے ان کےلیے دعا فرمائیں ۔ پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی : آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان واضح دھواں لائے گا۔ ۔۔۔۔ اپنی اسی حالت میں آجاؤ گے ۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا جب وہ آجائے گا ؟ چنانچہ قحط کے ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے۔ اللہ کے درج ذیل ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے : یوم نبطش البطشۃ الکبری یہ بطشہ کفار قریش پر غزوۂ بدر کے دن واقع ہوا ۔ اور لزاما میں بھی اشارہ معرکہ بدر کی طرف ہے ۔ اسی طرح الم غلبت الروم سے سیغلبون تک ، یہ واقعہ بھی گزرچکا ہے ۔