بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان ہے رحم والا
وَقَالَ مُجَاهِدٌ {عَلَى أُمَّةٍ} عَلَى إِمَامٍ. {وَقِيلَهُ يَا رَبِّ} تَفْسِيرُهُ أَيَحْسِبُونَ أَنَّا لاَ نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ، وَلاَ نَسْمَعُ قِيلَهُمْ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {وَلَوْلاَ أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً} لَوْلاَ أَنْ جَعَلَ النَّاسَ كُلَّهُمْ كُفَّارًا لَجَعَلْتُ لِبُيُوتِ الْكُفَّارِ سَقْفًا مِنْ فِضَّةٍ، وَمَعَارِجَ مِنْ فِضَّةٍ، وَهْىَ دَرَجٌ وَسُرُرُ فِضَّةٍ {مُقْرِنِينَ} مُطِيقِينَ {آسَفُونَا} أَسْخَطُونَا. {يَعْشُ} يَعْمَى. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ} أَىْ تُكَذِّبُونَ بِالْقُرْآنِ، ثُمَّ لاَ تُعَاقَبُونَ عَلَيْهِ {وَمَضَى مَثَلُ الأَوَّلِينَ} سُنَّةُ الأَوَّلِينَ {مُقْرِنِينَ} يَعْنِي الإِبِلَ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ. {يَنْشَأُ فِي الْحِلْيَةِ} الْجَوَارِي جَعَلْتُمُوهُنَّ لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا فَكَيْفَ تَحْكُمُونَ {لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ} يَعْنُونَ الأَوْثَانَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى {مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ} الأَوْثَانُ إِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ {فِي عَقِبِهِ} وَلَدِهِ، {مُقْتَرِنِينَ} يَمْشُونَ مَعًا {سَلَفًا} قَوْمُ فِرْعَوْنَ {سَلَفًا} لِكُفَّارِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم {وَمَثَلاً} عِبْرَةً {يَصِدُّونَ} يَضِجُّونَ {مُبْرِمُونَ} مُجْمِعُونَ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ {إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ} الْعَرَبُ تَقُولُ نَحْنُ مِنْكَ الْبَرَاءُ وَالْخَلاَءُ وَالْوَاحِدُ وَالاِثْنَانِ وَالْجَمِيعُ مِنَ الْمُذَكَّرِ وَالْمُؤَنَّثِ يُقَالُ فِيهِ بَرَاءٌ لأَنَّهُ مَصْدَرٌ وَلَوْ قَالَ بَرِيءٌ لَقِيلَ فِي الاِثْنَيْنِ بَرِيئَانِ وَفِي الْجَمِيعِ بَرِيئُونَ. وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّنِي بَرِيءٌ بِالْيَاءِ، وَالزُّخْرُفُ الذَّهَبُ. مَلاَئِكَةً يَخْلُفُونَ يَخْلُفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.
مجاہد نے کہا علٰی امّۃ کا معنی ایک امام پر (یا ایک ملت پر یا ایک دین پر) و قیلہ یا ربّ کا معنی یہ ہے کہ کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور کاناپھونسی اور ان کی گفتگو نہیں سنتے۔ اور ابن عباسؓ نے کہا وَ لَو لَا اَن یَکُونَ النَّاسُ اُمَّۃ وَاحِدَۃ کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگوں کو کافر ہی بنا ڈالتا تو میں کافروں کے گھروں میں چاندی کی چھتیں اور چاندی کی سیڑھیاں کر دیتا۔ معارتج کا معنی سیڑھیاں، تخت وغیرہ۔ مُقرِنِین زور والے۔ اٰسَفُونَا ہم کو غصہ دلا دیا۔ یَعشُ اندھا پن جائے۔ مجاہد نے کہا افَنَضرِبُ عَنکُمُ الذِّکرُ کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو گے اور ہم تم پر عذاب نہیں اتارنے کے (تم کو ضرور عذاب ہو گا)۔ وَمَضِی مثلُ الاوّلین اگلوں کے قصے کہانیاں چل پڑے۔ وَ مَا کُنَّا لَہُ مُقرِنِین یعنی اونٹ گھوڑے، خچر، گدھوں پر ہمارا زور نہ چل سکتا۔ یَنشَاُ فِی الحُلیَۃِ سے مراد بیٹیاں ہیں یعنی تم نے بیٹی ذات کو اللہ کی اولاد ٹھہرایا۔ واہ واہ کیا اچھا حکم لگاتے ہو۔ لَو شَاءَ الرَّحمٰنُ مَا عَبَدنَا ھُم میں ھم کی ضمیر بتوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ آگے فرمایا ما لھم بذالک مِن علم یعنی بتوں کو جن کو یہ پوجتے ہیں کچھ علم ہی نہیں ہے (وہ تو بے جان ہیں)۔ فی عقبہ اس کی اولاد میں۔ مقترِنِین ساتھ ساتھ چلتے ہوئے۔ سَلَفًا سے مراد فرعون کی قوم ہے وہ لوگ محمدﷺ کی امت میں جو کافر ہیں ان کے پیشوا (اگلے لوگ) تھے۔ وَ مَثَلًا لِّلاٰخِرِینَ پچھلوں کے لئے عبرت مثال۔ یَصِدُّونَ چِلّانے لگے۔، غل شور کرنے لگے۔ مُبرمون ٹھانے والے، قرار دینے والے۔ اول العابدین سب سے پہلے ایمان لانے والا۔ اِنَّنِی بَرَاءٌ مِمَّا تَعبُدُون عرب لوگ کہتے ہیں ہم تم سے براء ہیں، ہم تم سے خلا ہیں (یعنی بیزار ہیں الگ ہیں کچھ غرض نہیں) واح اور تثنیہ اور جمع مذکر مؤنث سب میں براء کا لفظ بولا جاتا ہے۔کیونکہ براء مصدر ہے اور اگر بریٌ پڑھا جائے جیسے ابن مسعودؓ کی قراءت ہے تب تو تثنیہ میں٘ برئیان اور جمع میں بریئون کہنا چاہیئے۔ الزخرف سونا۔ ملائکۃً یَخلُفُونَ یعنی فرشتے جو ایک کے پیچھے ایک آتے رہتے ہیں
Chapter No: 1
باب {وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُم مَّاكِثُونَ }
The Statement of Allah, "And they will cry, 'O Malik (Keeper of Hell)! Let your Lord make an end of us.' He will say, 'Verily, you shall abide forever.'" (V.43:77)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ نَادَوا یَا مَالِکُ لِیَقضِ عَلِینَا رَبُّکَ قَالَ اِنَّکُم مَا کِثُون کی تفسیر
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ {وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ} وَقَالَ قَتَادَةُ مَثَلاً لِلآخِرِينَ عِظَةً. وَقَالَ غَيْرُهُ {مُقْرِنِينَ} ضَابِطِينَ يُقَالُ فُلاَنٌ مُقْرِنٌ لِفُلاَنٍ ضَابِطٌ لَهُ وَالأَكْوَابُ الأَبَارِيقُ الَّتِي لاَ خَرَاطِيمَ لَهَا {أَوَّلُ الْعَابِدِينَ} أَىْ مَا كَانَ فَأَنَا أَوَّلُ الأَنِفِينَ وَهُمَا لُغَتَانِ رَجُلٌ عَابِدٌ وَعَبِدٌ وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ {وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ} وَيُقَالُ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ الْجَاحِدِينَ مِنْ عَبِدَ يَعْبَدُ. وَقَالَ قَتَادَةُ {فِي أُمِّ الْكِتَابِ} جُمْلَةِ الْكِتَابِ أَصْلِ الْكِتَابِ {أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ} مُشْرِكِينَ. وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ رُفِعَ حَيْثُ رَدَّهُ أَوَائِلُ هَذِهِ الأُمَّةِ لَهَلَكُوا {فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الأَوَّلِينَ} عُقُوبَةُ الأَوَّلِينَ {جُزْءًا} عِدْلاً.
Narrated By Ya'la : I heard the Prophet reciting when on the pulpit: 'They will cry, "O Malik (Keeper of Hell) Let your Lord make an end of us.' (43.77)
حضرت صو ان بن یعلی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك»اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔اور قتادہ نے کہا «مثلا للآخرين» یعنی پچھلوں کے لیے نصیحت۔ دوسرے نے کہا «مقرنين» کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا «مقرن» ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے (اس کو قابو میں لایا ہے)۔ «أكواب» وہ کوزے جن میں ٹوٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پیے۔ «ان کان للرحمن ولد» کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (اس صورت میں «ان نافيه» ہے) «عابدين» سے«آنفين» مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے «عار» کرتا ہوں۔ اس میں دو لغت ہیں «عابد وعبد» حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو «وقال الرسول يا رب» پڑھا ہے۔ «أول العابدين» کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں۔ اس صورت میں «عابدين» باب «عبد يعبد.» سے آئے گا اور قتادہ نے کہا «في أم الكتاب» کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ میں)۔
«مسرفين» سے مراد مشرکین ہیں۔ واللہ اگر یہ قرآن اٹھا لیا جاتا جب کہ ابتداء میں قریش نے اسے رد کر دیا تھا تو سب ہلاک ہو جاتے۔ «فأهلكنا أشد منهم بطشا ومضى مثل الأولين» میں «مثل» سے عذاب مراد ہے۔ «جزءا» بمعنی «عدلا» یعنی شریک۔
Chapter No: 2
باب: {أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ}مُشْرِكِينَ.
"Shall we then (warn you not and) take away the Reminder (this Quran) from you, because you are a people Musrifun (who cross the limits)." (V.43:5)
باب: افَنَضرِبُ عَنکُمُ الذِّکرُ صَفحًا اِن کُنتُم قَومًا مُّسرِفِین ،مُّسرِفِین سے مشرکین مراد ہے
وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ رُفِعَ حَيْثُ رَدَّهُ أَوَائِلُ هَذِهِ الأُمَّةِ لَهَلَكُوا {فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الأَوَّلِينَ} عُقُوبَةُ الأَوَّلِينَ {جُزْءًا} عِدْلاً.
قتادہ نے کہا خدا کی قسم اگر جس وقت شروع میں اگلے کافروں نے قرآن کو جھٹلایا تھا قرآن مجید اٹھا لیا جاتا تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے (عذاب آتا) وَمَضیٰ مثل الاوّلَیۡنَ یعنی اگلوں کو عذاب ہو چکا ہے۔مِنۡ عَبَادِہٖ جُزۡأ یعنی بعضے بندوں کو انہوں نے اللہ کے برابر کر دیا۔