بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
Chapter No: 1
باب {حُرُمٌ} وَاحِدُهَا حَرَامٌ
"[Game (also) being unlawful] when you assume Ihram for Hajj or Umra ..." (V.5:1)
باب:
{فَبِمَا نَقْضِهِمْ} بِنَقْضِهِمْ {الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ} جَعَلَ اللَّهُ {تَبُوءَ} تَحْمِلُ {دَائِرَةٌ} دَوْلَةٌ. وَقَالَ غَيْرُهُ الإِغْرَاءُ التَّسْلِيطُ {أُجُورَهُنَّ} مُهُورَهُنَّ. الْمُهَيْمِنُ الأَمِينُ، الْقُرْآنُ أَمِينٌ عَلَى كُلِّ كِتَابٍ قَبْلَهُ
"So, because of their breach of their covenant ..." (V.5:13)
Sufyan said, "There is no Ayat harder on me in the entire Quran than this Ayat, '(Say O Muhammad (s.a.w)) O people of the Scripture! You are nothing till you act according to the Taurat (Torah), the Injeel (Gospel) and what has been sent down to you from your Lord ...' (V.5:68)."
حرم جمع ہے حرام کی یعنی احرام باندھے ہو (فبما نقضھم میثاقھم) سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو حکم دیا تھا (بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ) وہ بجا نہیں لائے۔( تبوا باثمی) یعنی تو میرا گناہ اٹھا لے گا۔ دائرۃ) کا معنی زمانے کی گردش اور دوسرے لوگوں نے کہا (اغراء) کا معنی مسلط کرنا، ڈال دینا۔ (اجورھن) یعنی ان کے مہر۔
(المھیمن) کا معنی امانت دار، نگران گویا قرآن اگلی آسمانی کتابوں کا محافظ ہے۔ سفیان ثوریؒ نے کہا سارے قرآن میں اس سے زیادہ کوئی آیت مجھ پر سخت نہیں ہے لستم علیٰ شیء حتّیٰ تقیموا التوراۃ و الانجیل و ما انزل الیکم من ربکم ۔ (مخمصۃ) کا معنی بھوک(من احیاھا)یعنی جس نے نا حق آدمی کا خون کرنا حرام سمجھا۔ گویا سب آدمی اس کی وجہ سے زندہ رہے۔ (شرعۃ و منھاجا) یعنی راہ اور طریقہ (عثر) کا معنی ظاہر ہوا۔ (اولیان) تثنیہ ہے اس کا واحد اولیٰ ہے یعنی پہلا۔
Chapter No: 2
باب قَوْلِهِ {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ}
Allah's Statement, "This day, I have perfected your Deen for you ..." (V.5:3)
باب : اللہ کے اس قول الیوم اکملت لکم دینکم ۔ کی تفسیر
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَخْمَصَةٌ مَجَاعَةٌ
ابن عباسؓ نے کہا مخمصۃ سے مراد بھوک ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَتِ الْيَهُودُ لِعُمَرَ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ نَزَلَتْ فِينَا لاَتَّخَذْنَاهَا عِيدًا. فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَإِنَّا وَاللَّهِ بِعَرَفَةَ ـ قَالَ سُفْيَانُ وَأَشُكُّ كَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمْ لاَ – {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ}
Narrated By Tariq bin Shihab : The Jews said to 'Umar, "You (i.e. Muslims) recite a Verse, and had it been revealed to us, we would have taken the day of its revelation as a day of celebration." 'Umar said, "I know very well when and where it was revealed, and where Allah's Apostle was when it was revealed. (It was revealed on) the day of Arafat (Hajj Day), and by Allah, I was at Arafat" Sufyan, a sub-narrator said: I am in doubt whether the Verse: "This day I have perfected your religion for you." was revealed on a Friday or not.
طارق بن شہاب سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگ ایک ایسی آیت تلاوت کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن عید منایا کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ آیت «اليوم أكملت لكم دينكم» کہاں اور کب نازل ہوئی تھی؟ اور جب وہ نازل ہوئی تو رسو ل اللہ ﷺکہاں تشریف فرما تھے ۔وہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی اور اللہ کی قسم! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔ سفیان ثوری نے کہا : مجھے شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا اور کوئی دوسرا دن۔
Chapter No: 3
باب قَوْلِهِ {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا}
Allah's Statement, "... And you find no water, then perform Tayammum with clean earth ..." (V.5:6)
باب : اللہ کے اس قول فلم تجدوا ماء الخ ۔ کی تفسیر۔
تیمموا کا معنی قصد کرو۔ آمین البیت الحرام یعنی بیت اللہ کا قصد کرنے والے۔ اممت اور تیمم دونوں کامعنی ایک ہی ہے۔ اور ابن عباسؓ نے کہا قرآن میں جو لامستم کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح تمسّوھن اسی طرح دخلتم بھن اسی طرح افضیٰ بعضکم الیٰ بعض تو ان چاروں لفظوں سے جماع مراد ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَقَالُوا أَلاَ تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِالنَّاسِ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسَ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ قَالَتْ عَائِشَةُ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي، وَلاَ يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلاَّ مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى فَخِذِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ. قَالَتْ فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا الْعِقْدُ تَحْتَهُ.
Narrated By 'Aisha : The wife of the Prophet : We set out with Allah's Apostle on one of his journeys, and when we were at Baida' or at Dhat-al-Jaish, a necklace of mine was broken (and lost). Allah's Apostle stayed there to look for it, and so did the people along with him. Neither were they at a place of water, nor did they have any water with them. So the people went to Abu Bakr As-Siddiq and said, "Don't you see what 'Aisha has done? She has made Allah's Apostle and the people, stay where there is no water and they have no water with them." Abu Bakr came while Allah's Apostle was sleeping with his head on my thigh. He said (to me), "You have detained Allah's Apostle and the people where there is no water, and they have no water with them." So he admonished me and said what Allah wished him to say, and he hit me on my flanks with his hand. Nothing prevented me from moving (because of pain! but the position of Allah's Apostle on my thigh. So Allah's Apostle got up when dawn broke and there was no water, so Allah revealed the Verse of Tayammum. Usaid bin Hudair said, "It is not the first blessing of yours, O the family of Abu Bakr." Then we made the camel on which I was riding, got up, and found the necklace under it.
نبی ﷺکی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا۔ اس لیے رسول اللہﷺنے اسے تلاش کروانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے، آپ نہیں دیکھتے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے اور نبی ﷺکو یہیں ٹھہرا لیا اور ہمیں بھی، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اس حال میں کہ نبی ﷺ اپنا سر مبارک میری ران پر رکھ کر سو گئے تھے اور کہنے لگے تم نے نبی ﷺکو اور سب کو روک لیا، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا۔ اور (اس کے علاوہ ) ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ نبی ﷺمیری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ پھر نبی ﷺاٹھے اور صبح تک کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو حضرت اسید بن حضیر نے کہا :اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ سَقَطَتْ قِلاَدَةٌ لِي بِالْبَيْدَاءِ وَنَحْنُ دَاخِلُونَ الْمَدِينَةَ، فَأَنَاخَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَنَزَلَ، فَثَنَى رَأْسَهُ فِي حَجْرِي رَاقِدًا، أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَكَزَنِي لَكْزَةً شَدِيدَةً وَقَالَ حَبَسْتِ النَّاسَ فِي قِلاَدَةٍ. فَبِي الْمَوْتُ لِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَدْ أَوْجَعَنِي، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم اسْتَيْقَظَ وَحَضَرَتِ الصُّبْحُ فَالْتُمِسَ الْمَاءُ فَلَمْ يُوجَدْ فَنَزَلَتْ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ} الآيَةَ. فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ لَقَدْ بَارَكَ اللَّهُ لِلنَّاسِ فِيكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، مَا أَنْتُمْ إِلاَّ بَرَكَةٌ لَهُمْ.
Narrated By 'Aisha : A necklace of mine was lost at Al-Baida' and we were on our way to Medina. The Prophet made his camel kneel down and dismounted and laid his head on my lap and slept. Abu Bakr came to me and hit me violently on the chest and said, "You have detained the people because of a necklace." I kept as motionless as a dead person because of the position of Allah's Apostle ; (on my lap) although Abu Bakr had hurt me (with the slap). Then the Prophet woke up and it was the time for the morning (prayer). Water was sought, but in vain; so the following Verse was revealed:
"O you who believe! When you intend to offer prayer..." (5.6) Usaid bin Hudair said, "Allah has blessed the people for your sake, O the family of Abu Bakr. You are but a blessing for them."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میرا ہار مقام بیداء میں گم ہو گیا تھا۔ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے، نبی ﷺنے وہیں اپنی سواری روک دی اور اتر گئے، پھر نبی ﷺ سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو رہے تھے ۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آ گئے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ مار کر فرمایا کہ ایک ہار کے لیے تم نے نبی ﷺکو روک لیا لیکن نبی ﷺکے آرام کے خیال سے میں بےحس و حرکت بیٹھی رہی حالانکہ مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ پھر نبی کریم ﷺبیدار ہوئے اور صبح کا وقت ہوا اور پانی کی تلاش ہوئی لیکن کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی وقت یہ آیت اتری «يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة» الخ۔حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے آل ابی بکر! تمہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے باعث برکت بنایا ہے۔ یقیناً تم لوگوں کے لیے باعث برکت ہو۔
Chapter No: 4
باب قَوْلِهِ {فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَا هُنَا قَاعِدُونَ}
The Statement of Allah, "... So go you and your Lord and fight you two, we are sitting right here." (V.5:24)
باب : اللہ کے اس قول فاذھب انت و ربّک فقتلا انّا ھاھنا قاعدون ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ شَهِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ ح وَحَدَّثَنِي حَمْدَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا الأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُخَارِقٍ عَنْ طَارِقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ الْمِقْدَادُ يَوْمَ بَدْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لاَ نَقُولُ لَكَ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى {فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَا هُنَا قَاعِدُونَ} وَلَكِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَكَ. فَكَأَنَّهُ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. وَرَوَاهُ وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُخَارِقٍ عَنْ طَارِقٍ أَنَّ الْمِقْدَادَ قَالَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By Abdullah (bin Masud) : On the day of Badr, Al-Miqdad said, "O Allah's Apostle! We do not say to you as the children of Israel said to Moses, 'Go you and your Lord and fight you two; we are sitting here, (5.24) but (we say). "Proceed, and we are with you." That seemed to delight Allah's Apostle greatly.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے موقع پر حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: یا رسول اللہﷺ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی «فاذهب أنت وربك فقاتلا إنا ها هنا قاعدون» کہ آپ اور آپ کے خدا چلے جائیں اور(ان سے )لڑیں ہم یہیں بیٹھے ہیں ۔ لیکن آپ چلیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺکے تمام خدشات دور ہوگئے ہیں اور آپﷺبہت خوش ہوئے۔
اس حدیث کو وکیع نے بھی سفیان ثوری سے، انہوں نے مخارق سے، انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے کہ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺسے یہ عرض کیا (جو اوپر بیان ہوا)۔
Chapter No: 5
باب {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا }الآية
"The recompense of those who wage war against Allah and His Messenger, and do mischief in the land is only that they shall be killed or crucified or their hands and feet be cut off from opposite sides ..." (V.5:33)
باب : اللہ کے اس قول انّما جزاء الّذین یحاربون اللہ و رسولہ و یسعون فی الارض فسادا ۔ کی تفسیر۔
الْمُحَارَبَةُ لِلَّهِ الْكُفْرُ بِهِ
To wage war against Allah means to reject faith in Him.
یحاربون اللہ و رسولہ سے کفر کرنا مراد ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سَلْمَانُ أَبُو رَجَاءٍ، مَوْلَى أَبِي قِلاَبَةَ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَذَكَرُوا وَذَكَرُوا فَقَالُوا وَقَالُوا قَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ، فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلاَبَةَ وَهْوَ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَقَالَ مَا تَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ أَوْ قَالَ مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلاَبَةَ قُلْتُ مَا عَلِمْتُ نَفْسًا حَلَّ قَتْلُهَا فِي الإِسْلاَمِ إِلاَّ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ عَنْبَسَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ بِكَذَا وَكَذَا. قُلْتُ إِيَّاىَ حَدَّثَ أَنَسٌ قَالَ قَدِمَ قَوْمٌ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَكَلَّمُوهُ فَقَالُوا قَدِ اسْتَوْخَمْنَا هَذِهِ الأَرْضَ. فَقَالَ " هَذِهِ نَعَمٌ لَنَا تَخْرُجُ، فَاخْرُجُوا فِيهَا، فَاشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا ". فَخَرَجُوا فِيهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا وَاسْتَصَحُّوا، وَمَالُوا عَلَى الرَّاعِي فَقَتَلُوهُ، وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ، فَمَا يُسْتَبْطَأُ مِنْ هَؤُلاَءِ قَتَلُوا النَّفْسَ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَخَوَّفُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ. فَقُلْتُ تَتَّهِمُنِي قَالَ حَدَّثَنَا بِهَذَا أَنَسٌ. قَالَ وَقَالَ يَا أَهْلَ كَذَا إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا أُبْقِيَ هَذَا فِيكُمْ أَوْ مِثْلُ هَذَا.
Narrated By Abu Qilaba : That he was sitting behind Umar bin Abdul Aziz and the people mentioned and mentioned (about At-Qasama) and they said (various things), and said that the Caliphs had permitted it. 'Umar bin 'Abdul 'Aziz turned towards Abu Qilaba who was behind him and said. "What do you say, O 'Abdullah bin Zaid?" or said, "What do you say, O Abu Qilaba?" Abu Qilaba said, "I do not know that killing a person is lawful in Islam except in three cases: a married person committing illegal sexual intercourse, one who has murdered somebody unlawfully, or one who wages war against Allah and His Apostle." 'Anbasa said, "Anas narrated to us such-and-such." Abu Qilaba said, "Anas narrated to me in this concern, saying, some people came to the Prophet and they spoke to him saying, 'The climate of this land does not suit us.' The Prophet said, 'These are camels belonging to us, and they are to be taken out to the pasture. So take them out and drink of their milk and urine.' So they took them and set out and drank of their urine and milk, and having recovered, they attacked the shepherd, killed him and drove away the camels.' Why should there be any delay in punishing them as they murdered (a person) and waged war against Allah and His Apostle and frightened Allah's Apostle ?" Anbasa said, "I testify the uniqueness of Allah!" Abu Qilaba said, "Do you suspect me?" 'Anbasa said, "No, Anas narrated that (Hadith) to us." Then 'Anbasa added, "O the people of such-and-such (country), you will remain in good state as long as Allah keeps this (man) and the like of this (man) amongst you."
ابوقلابہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ وہ (امیرالمؤمنین) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے (مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا) لوگوں نے کہا : قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا: عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا : مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوائے اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا (پھر) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو (مرتد ہو گیا ہو)۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی ﷺسے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم ﷺنے ان سے فرمایا :کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو (کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا) چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے وہ صحت یاب ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے (نبی ﷺکے چرواہے) کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی ﷺکو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ (نہیں) یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔
Chapter No: 6
باب قَوْلِهِ: {وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ}
Allah's Statement, "... And wounds, equal for equal (Al-Qisas) ..." (V.5:45)
باب : اللہ کے اس قول و الجروح قصاص ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ ـ وَهْىَ عَمَّةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَطَلَبَ الْقَوْمُ الْقِصَاصَ، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْقِصَاصِ. فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ لاَ وَاللَّهِ لاَ تُكْسَرْ سِنُّهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ ". فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الأَرْشَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ ".
Narrated By Anas (bin Malik) : Ar-Rubai (the paternal aunt of Anas bin Malik) broke the incisor tooth of young Ansari girl. Her family demanded the Qisas and they came to the Prophet who passed the judgment of Qisas. Anas bin An-Nadr (the paternal uncle of Anas bin Malik) said, "O Allah's Apostle! By Allah, her tooth will not be broken." The Prophet said, "O Anas! (The law prescribed in) Allah's Book is Qisas." But the people (i.e. the relatives of the girl) gave up their claim and accepted a compensation. On that Allah's Apostle said, "Some of Allah's worshippers are such that if they take an oath, Allah will fulfil it for them."
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ربیع نے جو انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں، انصار کی ایک لڑکی کے آگے کے دانت توڑ دیئے۔ لڑکی والوں نے قصاص چاہا اور نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺنے بھی قصاص کا حکم دیا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! ان کا دانت نہیں توڑ ا جائے گا۔ نبی ﷺنے فرمایا : اے انس! لیکن کتاب اللہ کا حکم قصاص ہی کا ہے۔ پھر لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور دیت لینا منظور کر لیا۔ اس پر نبی ﷺنے فرمایا : اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم سچی کر دیتا ہے۔
Chapter No: 7
باب {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ}
"O Messenger (s.a.w)! Proclaim which has been sent down to you from your Lord ..." (V.5:67)
باب : اللہ کے اس قول یٰایّھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من رّبّک ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَقَدْ كَذَبَ، وَاللَّهُ يَقُولُ {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ} الآيَةَ.
Narrated By 'Aisha : Whoever tells that Muhammad concealed part of what was revealed to him, is a liar, for Allah says:
"O Apostle (Muhammad)! Proclaim (the Message) which has been sent down to you from your Lord." (5.67)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: جو شخص بھی تم سے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺپر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپا لیا تھا، تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك» کہ اے پیغمبر! جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ (سب) آپ (لوگوں تک) پہنچا دیں۔
Chapter No: 8
باب قَوْلِهِ {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ}
Allah's Statement, "Allah will not punish you for what is unintentional in your oaths ..." (V.5:89)
باب : اللہ کے اس قول لا یؤاخذکم اللہ باللّغو فی ایمانکم ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنِ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ} فِي قَوْلِ الرَّجُلِ لاَ وَاللَّهِ، وَبَلَى وَاللَّهِ.
Narrated By 'Aisha : This Verse: "Allah will not punish you for what is unintentional in your oaths." (5.89) was revealed about a man's state men (during his talk), "No, by Allah," and "Yes, by Allah."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہ آیت «لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم» اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ کسی کے اس طرح قسم کھانے کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ لا واللہ (نہیں، اللہ کی قسم!)وبلی، واللہ ( ہاں اللہ کی قسم!)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ أَبَاهَا، كَانَ لاَ يَحْنَثُ فِي يَمِينٍ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ لاَ أَرَى يَمِينًا أُرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلاَّ قَبِلْتُ رُخْصَةَ اللَّهِ، وَفَعَلْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ.
Narrated By 'Aisha : That her father (Abu Bakr) never broke his oath till Allah revealed the order of the legal expiation for oath. Abu Bakr said, "If I ever take an oath (to do something) and later find that to do something else is better, then I accept Allah's permission and do that which is better, (and do the legal expiation for my oath)".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ان کے والد (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ )اپنی قسم کے خلاف کبھی نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کا حکم نازل کر دیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ اب اگر قسم کے سوا دوسری چیز مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتا ہوں اور وہی کام کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔
Chapter No: 9
باب{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ }
The Statement of Allah, "O you who believe! Make not unlawful the Tayyibat (all that is good) which Allah has made lawful to you ..." (V.5:87)
باب : اللہ کے اس قول یا ایّھا الّذین آمنوا لا تحرّمواطیّبات لا احلّ اللہ لکم ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، رضى الله عنه قَالَ كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَلَيْسَ مَعَنَا نِسَاءٌ فَقُلْنَا أَلاَ نَخْتَصِي فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ، فَرَخَّصَ لَنَا بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ نَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ، ثُمَّ قَرَأَ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ }
Narrated By Abdullah : We used to participate in the holy wars carried on by the Prophet and we had no women (wives) with us. So we said (to the Prophet). "Shall we castrate ourselves?" But the Prophet forbade us to do that and thenceforth he allowed us to marry a woman (temporarily) by giving her even a garment, and then he recited: "O you who believe! Do not make unlawful the good things which Allah has made lawful for you."
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہﷺکے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں۔ لیکن نبی ﷺنے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے (یا کسی بھی چیز) کے بدلے میں نکاح کر سکتے ہیں۔ پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم» اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہیں۔
Chapter No: 10
باب قَوْلِهِ {إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ}
Allah's Statement, "Intoxicants (all kinds of alcoholic drinks), gambling, Al-Ansab and Al-Azlam (arrows for seeking luck or a decision) are an abomination of Satan's handiwork ..." (V.5:90)
باب : اللہ کے اس قول انّما الخمر و المیسر و الانصاب و الازلام رجس من عمل الشیطان ۔ کی تفسیر
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {الأَزْلاَمُ} الْقِدَاحُ يَقْتَسِمُونَ بِهَا فِي الأُمُورِ. وَالنُّصُبُ أَنْصَابٌ يَذْبَحُونَ عَلَيْهَا، وَقَالَ غَيْرُهُ الزُّلَمُ الْقِدْحُ لاَ رِيشَ لَهُ، وَهُوَ وَاحِدُ الأَزْلاَمِ. وَالاِسْتِقْسَامُ أَنْ يُجِيلَ الْقِدَاحَ فَإِنْ نَهَتْهُ انْتَهَى وَإِنْ أَمَرَتْهُ فَعَلَ مَا تَأْمُرُهُ. وَقَدْ أَعْلَمُوا الْقِدَاحَ أَعْلاَمًا بِضُرُوبٍ يَسْتَقْسِمُونَ بِهَا وَفَعَلْتُ مِنْهُ قَسَمْتُ وَالْقُسُومُ الْمَصْدَرُ
ابن عباسؓ نے کہاالازلام سے فال کھولنے کے تیر مراد ہیں کافر لوگ ان سے اپنی قسمت کا حال دریافت کیا کرتے تھے۔ اور نصب سے تھان مراد ہیں جن پر کافر قربانیاں کرتے تھے۔ اور دوسرے لوگوں نے کہا الازلام زَلَمَ کی جمع ہے۔ زلم کہتے ہیں بے پر کے تیر کو۔ اور استسقام سے ان تیروں کا پھرانا مراد ہے۔ اگر منع کی فال نکلتی تو کام نہ کرتےاور اگر حکم کی فال نکلتی تو اس کام کو کرتے۔ان تیروں پر مشرکوں نے قسم قسم کی نشانیاں بنا رکھی تھیں۔ ان سے قسمت کا حال دریافت کرتے تھے۔ استسقام کے معنی کو متکلم کے صیغہ میں لے جاؤ تو کہیں گے قَسَمۡتُ اور قسوم مصدر ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَإِنَّ فِي الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ لَخَمْسَةَ أَشْرِبَةٍ، مَا فِيهَا شَرَابُ الْعِنَبِ.
Narrated By Ibn Umar : (The Verse of) prohibiting alcoholic drinks was revealed when there were in Medina five kinds of (alcoholic) drinks none of which was produced from grapes.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ میں اس وقت پانچ قسم کی شراب استعمال ہوتی تھی۔ لیکن انگوری شراب کا استعمال نہیں ہوتا تھا ۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ مَا كَانَ لَنَا خَمْرٌ غَيْرُ فَضِيخِكُمْ هَذَا الَّذِي تُسَمُّونَهُ الْفَضِيخَ. فَإِنِّي لَقَائِمٌ أَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ وَهَلْ بَلَغَكُمُ الْخَبَرُ فَقَالُوا وَمَا ذَاكَ قَالَ حُرِّمَتِ الْخَمْرُ. قَالُوا أَهْرِقْ هَذِهِ الْقِلاَلَ يَا أَنَسُ. قَالَ فَمَا سَأَلُوا عَنْهَا وَلاَ رَاجَعُوهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ.
Narrated By Anas bin Malik : We had no alcoholic drink except that which was produced from dates and which you call Fadikh. While I was standing offering drinks to Abu Talh and so-and-so and so-and-so, a man cam and said, "Has the news reached you? They said, "What is that?" He said. "Alcoholic drinks have been prohibited. They said, "Spill (the contents of these pots, O Anas! "Then they neither asked about it (alcoholic drinks) nor returned it after the news from that man.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم لوگ تمہاری «فضيخ» (کھجور سے بنائی ہوئی شراب) کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے «فضيخ» رکھا ہے۔ میں کھڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا: تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا : شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہا: اے انس رضی اللہ عنہ اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ صَبَّحَ أُنَاسٌ غَدَاةَ أُحُدٍ الْخَمْرَ فَقُتِلُوا مِنْ يَوْمِهِمْ جَمِيعًا شُهَدَاءَ، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِهَا.
Narrated By Jabir : Some people drank alcoholic beverages in the morning (of the day) of the Uhud battle and on the same day they were killed as martyrs, and that was before wine was prohibited.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوۂ احد میں کچھ لوگوں نے صبح صبح شراب پی تھی اور اسی دن وہ سب شہید کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، وَابْنُ، إِدْرِيسَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ عَلَى مِنْبَرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَهْىَ مِنْ خَمْسَةٍ، مِنَ الْعِنَبِ وَالتَّمْرِ وَالْعَسَلِ وَالْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ.
Narrated By Ibn Umar : I heard 'Umar while he was on the pulpit of the Prophet saying, "Now then O people! The revelation about the prohibition of alcoholic drinks was revealed; and alcoholic drinks are extracted from five things: Grapes, dates, honey, wheat and barley. And the alcoholic drink is that which confuses and stupefies the mind."
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی ﷺکے منبر پر کھڑے فرما رہے تھے۔ امابعد! اے لوگو! جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ چیزوں سے تیار کی جاتی تھی۔ انگور، کھجور، شہد، گندم اور جَو سے اور شراب ہر وہ پینے کی چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔