بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
وَقَالَ فُضَيْلٌ عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، {مُتْكَأً} الأُتْرُجُّ قَالَ فُضَيْلٌ الأُتْرُجُّ بِالْحَبَشِيَّةِ مُتْكًا. وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ مُجَاهِدٍ مُتْكًا كُلُّ شَىْءٍ قُطِعَ بِالسِّكِّينِ. وَقَالَ قَتَادَةُ {لَذُو عِلْمٍ}. عَامِلٌ بِمَا عَلِمَ. وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ صُوَاعٌ مَكُّوكُ الْفَارِسِيِّ الَّذِي يَلْتَقِي طَرَفَاهُ، كَانَتْ تَشْرَبُ بِهِ الأَعَاجِمُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {تُفَنِّدُونِ} تُجَهِّلُونِ. وَقَالَ غَيْرُهُ غَيَابَةٌ كُلُّ شَىْءٍ غَيَّبَ عَنْكَ شَيْئًا فَهْوَ غَيَابَةٌ. وَالْجُبُّ الرَّكِيَّةُ الَّتِي لَمْ تُطْوَ. {بِمُؤْمِنٍ لَنَا} بِمُصَدِّقٍ. {أَشُدَّهُ} قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَ فِي النُّقْصَانِ، يُقَالُ بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغُوا أَشُدَّهُمْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ وَاحِدُهَا شَدٌّ، وَالْمُتَّكَأُ مَا اتَّكَأْتَ عَلَيْهِ لِشَرَابٍ أَوْ لِحَدِيثٍ أَوْ لِطَعَامٍ. وَأَبْطَلَ الَّذِي قَالَ الأُتْرُجُّ، وَلَيْسَ فِي كَلاَمِ الْعَرَبِ الأُتْرُجُّ، فَلَمَّا احْتُجَّ عَلَيْهِمْ بِأَنَّهُ الْمُتَّكَأُ مِنْ نَمَارِقَ فَرُّوا إِلَى شَرٍّ مِنْهُ، فَقَالُوا إِنَّمَا هُوَ الْمُتْكُ سَاكِنَةَ التَّاءِ، وَإِنَّمَا الْمُتْكُ طَرَفُ الْبَظْرِ وَمِنْ ذَلِكَ قِيلَ لَهَا مَتْكَاءُ وَابْنُ الْمَتْكَاءِ، فَإِنْ كَانَ ثَمَّ أُتْرُجٌّ فَإِنَّهُ بَعْدَ الْمُتَّكَإِ. {شَغَفَهَا} يُقَالُ إِلَى شِغَافِهَا وَهْوَ غِلاَفُ قَلْبِهَا، وَأَمَّا شَعَفَهَا فَمِنَ الْمَشْعُوفِ {أَصْبُ} أَمِيلُ. {أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ} مَا لاَ تَأْوِيلَ لَهُ، وَالضِّغْثُ مِلْءُ الْيَدِ مِنْ حَشِيشٍ وَمَا أَشْبَهَهُ، وَمِنْهُ {وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا} لاَ مِنْ قَوْلِهِ {أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ} وَاحِدُهَا ضِغْثٌ {نَمِيرُ} مِنَ الْمِيرَةِ {وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ} مَا يَحْمِلُ بَعِيرٌ. {أَوَى إِلَيْهِ} ضَمَّ إِلَيْهِ، السِّقَايَةُ مِكْيَالٌ {تَفْتَأُ} لاَ تَزَالُ. {حَرَضًا} مُحْرَضًا، يُذِيبُكَ الْهَمُّ. {تَحَسَّسُوا} تَخَبَّرُوا. {مُزْجَاةٍ} قَلِيلَةٍ {غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ} عَامَّةٌ مُجَلِّلَةٌ.
اور فُضیل بن عیاض بن موسیٰ (زاہد مشہور) نے حصین بن عبدالیرحمٰن سے روایت کی انہوں نے مجاہد سے انہوں نے کہا مُتَّکِاً کا معنیٰ تُرنج اور خود فضیل نے بھی کہا کہ مُتَّکِاً حبشی زبان میں ترنج کو کہتے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے ایک شخص ( نام نا معلوم) سے روایت کی اس نے مجاہدؒ سے انہوں نے کہا مُتَّکِاً ہر وہی چیز جو چھری سے کاٹی جائے ( میوہ ہو یا ترکاری) اور قتادہؒ نے کہا ذُوۡ عِلۡمٍ اپنے علم پر عمل کرنے والا اور سعید بن جبیرؓ نے کہا صُواع ایک ماپ جس کو فارسی میں مکوک کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہی اور ابن عباس نے کہا لَوۡ لَا اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ کا معنیٰ مجھ کو جاہل نہ کہو دوسرے لوگوں نے کہا غَیَا بَۃُ وہ چیز جو دوسری یز چھپا دے ، غائب کر دے اور جُبۡ کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو۔ وَمَا اَنۡتَ بِمُؤ مِنٍ لَّنَا یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں۔
اَشُدّ ہ وہ عمر جو امانہ انحطاط سے پہلے ہو ( تیس سے چالیس برس تک )عرب لوگ کہتے ہیں۔ بلغ اشدہ اور بَلَغُوا اَشُدَّھُمۡ یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے بعضوں نے کہا اَشُدَّ جمع ہے شدّ کی مُتَّکِاً مسند، تکیہ جس پر تو پینے یا کھانے یا باتیں کرنے کے لیے ٹیک لگا دے اور جس نے یہ کہا کہ مُتَّکِاً ترنج کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا عربی زبان میں مُتَّکِاً کا معنیٰ بالکل ترنج کہ نہیں آئے جب اس شخص سے جو مُتَّکِاً جا معنیٰ ترنج کہتا ہے اس کی دلیل بیان کی گئی کہ مُتَّکِاً مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو اس سے بھی بد تر ایک بات کہنے لگا یعنی یہ لفظ ہے مُتۡکُ (بسکون تا) حالانکہ عربی زبان میں مُتۡکُ ٹنے کے کنارے کو کہتے ہیں (جہاں عورت کا ختنہ کرتے ہیں ) اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی بان میں مُتکاء (متک والی) اور آدمی کو متکا کا بیٹا کہتے ہیں اگر بالفرض زلیخانے ترنج بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہو گا تو مسند، تکیہ لگا کر دیا ہو گا شَغَفَہَا یعنی اسکے دل کے شغاف(غلاف)میں اسکی محبّت سما گئی ہے بعضوں نے کہا شَغَفَہَا (عین مہملہ سے) ہے وہ مشعوف سے نکلا ہے اَصۡبُ مائل ہو جاؤنگا جھک پڑونگا ۔اَضۡغَاثُ اَحلَامٍ پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جاسکے ۔اصل مین اَضۡغَاث،ضِغۡث کی جمع ہے یعنی ایک مٹھی بھر گھاس تنکے وغیرہ اسی سے ہے۔(سورہ صٓ میں) خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثاً یعنی اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے۔اور اضغاث احلام میں ضغث کے یہ معنی مراد نہیں ہیں۔ بلکہ پریشان خواب مراد ہے۔نَمِیۡر میرہ سے نکلا ہے کھانا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ یعنے ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائینگےاٰویٰ اِلَیۡہِ اپنے سے ملایا(اپنے پاس بٹھا لیا)سِقَایہ ایک ماپ تھا۔(جس سے غلہ ماپتے تھے)اسۡتَیۡأسُوۡا جب نا امید ہوگئے۔وَلَا تَیۡأسُوۡا مِنۡ رُوۡحِ اللہِ اللہ سے امید رکھو۔(اس کی رحمت سے نا امید نہ ہو)خَلَصُوۡا نَجِیّاً ۔الگ جاکر مشورے کرنے لگے ۔نجی مشورہ کرنے والا اسکی جمع أَنۡجِیَۃ بھی آئی اسی سے ہے۔یَتَنَاجَوۡنَ یعنے مشورہ کر رہے ہیں نَجِیّ مفرد کا صیغہ ہےتثنیہ اور جمع میں نجی اور انجیۃ دونوں مستعمل ہیں تَفۡتَؤُ ہمیشہ ہوں گے حَرَضاًگلایا گیا یعنے رنج و غم تجھکو گلا ڈالے گا تَحَسّوۡا خبر لو۔ٹوہ لگاؤ مُزۡجَاۃ تھوڑی۔غَاشِیَۃ مّنۡ عَذَابِ اللہ کا ؑام عذاب جو سب کو گھیر لے۔
Chapter No: 1
باب قَوْلِهِ {وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ}الآية
The Statement of Allah, "... And perfect His Favour on you and on the offspring of Yaqub (Jacob) ..." (V.12:6)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ یُتِمُّ نِعمَتَہُ عَلَیکَ وَ عَلٰی اٰلِ یَعقُوبَ ۔ کی تفسیر ۔
وَقَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " الْكَرِيمُ بْنُ الْكَرِيمِ بْنِ الْكَرِيمِ بْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ".
Narrated By 'Abdullah bin Umar : The Prophet said, "The honourable, the son of the honourable the son of the honourable, i.e. Joseph, the son of Jacob, the son of Isaac, the son of Abraham."
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا : کریم بن کریم بن کریم بن کریم، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے۔(علیہم الصلٰوۃ والسلام)۔
Chapter No: 2
باب قَوْلِهِ {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ}
The Statement of Allah, "Verily, in Yusuf (Joseph) and his brethren, there were Ayat for those who ask." (V.12:7)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول لَقَد کَانَ فِی یُوسُفَ وَ اِخوَتِہِ اَیَاتُ لِلسَّائِلِین الخ ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَىُّ النَّاسِ أَكْرَمُ قَالَ " أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ ". قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ. قَالَ " فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ ". قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ. قَالَ " فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي ". قَالُوا نَعَمْ. قَالَ " فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا ". تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle was asked, "Who are the most honourable of the people?" The Prophet said, "The most honourable of them in Allah's Sight are those who keep their duty to Allah and fear Him. They said, "We do not ask you about that." He said, "Then the most honourable of the people is Joseph, Allah's prophet, the son of Allah's prophet, the son of Allah's prophet, the son of Allah's Khalil i.e. Abraham) They said, "We do not ask you about that." The Prophet said, Do you ask about (the virtues of the ancestry of the Arabs?" They said, "Yes," He said, "Those who were the best amongst you in the Pre-Islamic Period are the best amongst you in Islam if they comprehend (the Islamic religion)."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺسے کسی نے سوال کیا کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ شریف او رمعزز ہے تو آپ ﷺنے فرمایا : سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں تھا۔ نبی ﷺنے فرمایا:پھر سب سے زیادہ شریف حضرت یوسف علیہ السلام ہیں «نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله» ۔ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے سوال کا یہ بھی مقصد نہیں۔ نبی ﷺنے فرمایا : اچھا، عرب کے خاندانوں کے متعلق تم معلوم کرنا چاہتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی ﷺنے فرمایا : جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں، جبکہ دین کی سمجھ بھی انہیں حاصل ہو جائے۔ اس روایت کی متابعت ابواسامہ نے عبیداللہ سے کی ہے۔
Chapter No: 3
باب قَوْلِهِ {قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا} {سَوَّلَتْ} زَيَّنَتْ
The Statement of Allah, "He said, 'Nay, but your ownselves have made up a tale. So, patience is most fitting. And it is Allah Whose help can be sought against that (lie) which you describe.'" (V.12:18)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول قَالَ بَل سَوَّلَت لَکُم اَنفُسَکُم اَمرًا فَصَبرٌ جَمِیلٌ ۔ کی تفسیر ۔
سَوَّلَت کے معنی اچھا کر دکھایا
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،. قَالَ وَحَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الأَيْلِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ، كُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ ". قُلْتُ إِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَجِدُ مَثَلاً إِلاَّ أَبَا يُوسُفَ {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} وَأَنْزَلَ اللَّهُ {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ} الْعَشْرَ الآيَاتِ.
Narrated By Az-Zuhri : Urwa bin Az-Zubair, Said bin Al-Musaiyab, 'Al-Qama bin Waqqas and 'Ubaidullah bin 'Abdullah related the narration of 'Aisha, the wife the Prophet, when the slanderers had said about her what they had said and Allah later declared her innocence. Each of them related a part of the narration (wherein) the Prophet said (to 'Aisha). "If you are innocent, then Allah will declare your innocence: but if you have committed a sin, then ask for Allah's Forgiveness and repent to him." 'Aisha said, "By Allah, I find no example for my case except that of Joseph's father (when he said), 'So (for me) patience is most fitting.' " Then Allah revealed the ten Verses: "Verily those who spread the slander are a gang amongst you..." (24.11)
حضرت زہری سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر ، سیعد بن مسیب ، علقہ بن وقاص اورعبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺکی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کے متعلق سنا جس میں تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مبرا اور پاک صاف قرار دیا۔ ان تمام لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کچھ کچھ ٹکڑا بیان کیا۔ نبی ﷺنے ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا کہ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں مبرا اور پاک و صاف قرار دے گا۔ لیکن اگر تم نے گنا ہ کیا تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور میں توبہ کر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر کہا: اللہ کی قسم! میں تو ابو یوسف ک(حضرت یعقوب علیہ السلام )ے علاوہ اور کوئی مثال نہیں پاتی ۔«فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» اب صبر کرنا (ہی) بہتر ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے لے کر «إن الذين جاءوا بالإفك» سے آخر تک دس آیات نازل فرمائیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مَسْرُوقُ بْنُ الأَجْدَعِ، قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ رُومَانَ، وَهْىَ أُمُّ عَائِشَةَ قَالَتْ بَيْنَا أَنَا وَعَائِشَةُ أَخَذَتْهَا الْحُمَّى، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لَعَلَّ فِي حَدِيثٍ تُحُدِّثَ ". قَالَتْ نَعَمْ وَقَعَدَتْ عَائِشَةُ قَالَتْ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَيَعْقُوبَ وَبَنِيهِ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ.
Narrated By Um Ruman : Who was 'Aisha's mother: While I was with 'Aisha, 'Aisha got fever, whereupon the Prophet said, "Probably her fever is caused by the story related by the people (about her)." I said, "Yes." Then 'Aisha sat up and said, "My example and your example is similar to that of Jacob and his sons: 'Nay, but your minds have made up a tale. So (for me) patience is most fitting. It is Allah (alone) Whose help can be sought against that which you assert.' (12.18)
حضرت مسروق بن اجدع سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور حضرت عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخار چڑھ گیا۔ نبی ﷺنے فرمایا : غالباً یہ ان باتوں کی وجہ ہوا ہو گا جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھ گئیں اور کہا: میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی ہے اور آپ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔
Chapter No: 4
باب قَوْلِهِ {وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ}
The Statement of Allah, "And she, in whose house he was, sought to seduce him. She closed the doors and said, 'Come on, O you.' He said, 'I seek refuge in Allah'..." (V.12:23)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَرَاوَدَتہُ الَّتِی ھُوَ فِی بَیتِھَا عَنَ نفسِہِ وَ غَلَّقَتِ الاَبوابَ وَ قَالَت ھَیتَ لَکَ ۔ کی تفسیر ۔
وَقَالَ عِكْرِمَةُ هَيْتَ لَكَ بِالْحَوْرَانِيَّةِ هَلُمَّ. وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ تَعَالَهْ.
عکرمہ نے کہا ھَیتَ لَکَ حورانی زبان لا لفظ ہےاس کا معنی ہے آجا۔ سعید بن جبیر نے بھی یہی کہا ہے
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ هَيْتَ لَكَ قَالَ وَإِنَّمَا نَقْرَؤُهَا كَمَا عُلِّمْنَاهَا {مَثْوَاهُ} مُقَامُهُ {أَلْفَيَا} وَجَدَا {أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ} {أَلْفَيْنَا} وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ {بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ}
Narrated By Abu Wail : 'Abdullah bin Mas'ud recited "Haita laka (Come you)," and added, "We recite it as we were taught it."
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے «هيتُ لك» (ضمہ کے ساتھ )پڑھا اور فرمایا: جس طرح ہمیں یہ لفظ سکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم پڑھتے ہیں۔«مثواه» یعنی اس کا ٹھکانا، اور مقام۔ «ألفيا» یعنی ان دونوں نے پایا۔ جیسا کہ «ألفوا آباءهم» اور «ألفينا»۔اور ابن مسعود سے(سورۃ الصافات) میں «بل عجبت ويسخرون» منقول ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِالإِسْلاَمِ قَالَ " اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ " فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَىْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا مِثْلَ الدُّخَانِ قَالَ اللَّهُ {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} قَالَ اللَّهُ {إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلاً إِنَّكُمْ عَائِدُونَ} أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ وَمَضَتِ الْبَطْشَةُ.
Narrated By Abdullah (bin Mas'ud) : When the Prophet realized that the Quraish had delayed in embracing Islam, he said, "O Allah! Protect me against their evil by afflicting them with seven (years of famine) like the seven years of (Prophet) Joseph." So they were struck with a year of famine that destroyed everything till they had to eat bones, and till a man would look towards the sky and see something like smoke between him and it. Allah said:
"Then watch you (O Muhammad) for the day when the sky will produce a kind of smoke plainly visible." (44.10) And Allah further said: "Verily! We shall withdraw the punishment a little, Verily you will return (to disbelief)." (44.15) (Will Allah relieve them from torture on the Day of Resurrection?) (The punishment of) the smoke had passed and Al-Baltsha (the destruction of the pagans in the Badr battle) had passed too.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قریش نے جب رسول اللہ ﷺپر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپﷺ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين» تو آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ اور فرمایا «إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون» بیشک ہم اس عذاب کو تھوڑا سا دور کردیں گے اور تم بھی (اپنی پہلی حالت پر) لوٹ آؤ گے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے وہ آچکا ہے۔
Chapter No: 5
باب قَوْلِهِ {فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ * قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَى لِلَّهِ}
The Statement of Allah, "But when the Messenger came to him, (Yusuf) said, Return to your lord ... the women said, Allah forbid." (V.12:50,51)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول فَلَمَّا جَاءَہُ الرَّسُولَ قَال ارجِع اِلٰی رَبِّکَ الی قولہ قُلنَ حَاشَ لِلہِ ۔ کی تفسیر
وَحَاشَ وَحَاشَى تَنْزِيهٌ وَاسْتِثْنَاءٌ {حَصْحَصَ} وَضَحَ.
حَاشَ اور حاشا (الف کے ساتھ) اس کا معنی پاکی بیان کرنا اور استثناء کرنا، حَصحَصَ کا معنی کھل گیا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي، سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لأَجَبْتُ الدَّاعِيَ، وَنَحْنُ أَحَقُّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لَهُ {أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي}"
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "May Allah bestow His Mercy on (Prophet) Lot. (When his nation troubled him) he wished if he could betake himself to some powerful support; and if I were to remain in prison for the period Joseph had remained, I would surely respond to the call; and we shall have more right (to be in doubt) than Abraham: When Allah said to him, "Don't you believe?' Abraham said, 'Yes, (I do believe) but to be stronger in faith; (2.260)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے بے شک وہ ایک زبردست اور محکم سہارے کی پناہ لیتے تھے۔ اگر میں قید خانے میں اتنے دنوں تک رہ چکا ہوتا جتنے دن حضرت یوسف علیہ السلام رہے تھے تو بلانے والے کی بات رد نہ کرتا اور ہم تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بہ نسبت شک ہونا زیادہ سزاوار ہے۔ جب اللہ پاک نے ان سے فرمایا «أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي» کہ کیا تجھ کو یقین نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یقین تو ہے پر میں چاہتا ہوں کہ اور اطمینان ہو جائے۔
Chapter No: 6
باب قَوْلِهِ {حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ}
"(They were reprieved) until, when the Messengers gave up hope ..." (V.12:110)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول حَتّٰی اِذَا استَیئسَ الرُّسُلُ ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَهُ وَهُوَ يَسْأَلُهَا عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ} قَالَ قُلْتُ أَكُذِبُوا أَمْ كُذِّبُوا قَالَتْ عَائِشَةُ كُذِّبُوا. قُلْتُ فَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ فَمَا هُوَ بِالظَّنِّ قَالَتْ أَجَلْ لَعَمْرِي لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ. فَقُلْتُ لَهَا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا قَالَتْ مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا. قُلْتُ فَمَا هَذِهِ الآيَةُ. قَالَتْ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنَّتِ الرُّسُلُ أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ قَدْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ عِنْدَ ذَلِكَ.
Narrated By 'Urwa bin Az-Zubair : That when he asked 'Aisha about the statement of Allah "Until when the Apostles gave up hope (of their people)." (12.110) she told him (its meaning), 'Urwa added, "I said, 'Did they (Apostles) suspect that they were betrayed (by Allah) or that they were treated as liars by (their people)?' 'Aisha said, '(They suspected) that they were treated as liars by (their people),' I said, 'But they were sure that their people treated them as liars and it was not a matter of suspicion.' She said, 'Yes, upon my life they were sure about it.' I said to her. 'So they (Apostles) suspected that they were betrayed (by Allah).' She said, "Allah forbid! The Apostles never suspected their Lord of such a thing.' I said, 'What about this Verse then?' She said, 'It is about the Apostles' followers who believed in their Lord and trusted their Apostles, but the period of trials was prolonged and victory was delayed till the Apostles gave up all hope of converting those of the people who disbelieved them and the Apostles thought that their followers treated them as liars; thereupon Allah's help came to them.
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جبکہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے متعلق پوچھا: «حتى إذا استيأس الرسل» عروہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا تھا (آیت میں) «كذبوا» (تخفیف کے ساتھ) یا «كذبوا»(تشدیدکے ساتھ) اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : «كذبوا» (تشدید کے ساتھ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر «ظنوا» سے کیا مراد ہے، انہوں نے فرمایا: اپنی زندگی کی قسم! بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ میں نے کہا «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ پڑھیں تو کیا قباحت ہے۔ انہوں نے کہا معاذاللہ! کہیں پیغمبر اپنے پروردگار کی نسبت ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا ان کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہو گئے جنہوں نے ان کو جھٹلایا تھا اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کوجھوٹا سمجھنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، فَقُلْتُ لَعَلَّهَا {كُذِبُوا} مُخَفَّفَةً. قَالَتْ مَعَاذَ اللَّهِ.
Narrated By 'Urwa : "I told her ('Aisha): (Regarding the above narration), they (Apostles) were betrayed (by Allah)." She said: Allah forbid or said similarly.
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ہو سکتا ہے یہ «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ ہو تو انہوں نے فرمایا، معاذاللہ! پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری۔