بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
يُقَالُ {مُعَاجِزِينَ} مُسَابِقِينَ {بِمُعْجِزِينَ} بِفَائِتِينَ {مُعَاجِزِينَ} مُغَالِبِينَ {سَبَقُوا} فَاتُوا {لاَ يُعْجِزُونَ} لاَ يَفُوتُونَ {يَسْبِقُونَا} يُعْجِزُونَا قَوْلُهُ {بِمُعْجِزِينَ} بِفَائِتِينَ، وَمَعْنَى {مُعَاجِزِينَ} مُغَالِبِينَ يُرِيدُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنْ يُظْهِرَ عَجْزَ صَاحِبِهِ. مِعْشَارٌ. عُشْرٌ الأُكُلُ الثَّمَرُ {بَاعِدْ} وَبَعِّدْ وَاحِدٌ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {لاَ يَعْزُبُ} لاَ يَغِيبُ. الْعَرِمُ السُّدُّ مَاءٌ أَحْمَرُ أَرْسَلَهُ اللَّهُ فِي السُّدِّ فَشَقَّهُ وَهَدَمَهُ وَحَفَرَ الْوَادِيَ، فَارْتَفَعَتَا عَنِ الْجَنْبَيْنِ، وَغَابَ عَنْهُمَا الْمَاءُ فَيَبِسَتَا، وَلَمْ يَكُنِ الْمَاءُ الأَحْمَرُ مِنَ السُّدِّ، وَلَكِنْ كَانَ عَذَابًا أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَيْثُ شَاءَ. وَقَالَ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ الْعَرِمُ الْمُسَنَّاةُ بِلَحْنِ أَهْلِ الْيَمَنِ. وَقَالَ غَيْرُهُ الْعَرِمُ الْوَادِي. السَّابِغَاتُ الدُّرُوعُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ يُجَازَى يُعَاقَبُ. {أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ} بِطَاعَةِ اللَّهِ. {مَثْنَى وَفُرَادَى} وَاحِدٌ وَاثْنَيْنِ. {التَّنَاوُشُ} الرَّدُّ مِنَ الآخِرَةِ إِلَى الدُّنْيَا. {وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ} مِنْ مَالٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ زَهْرَةٍ. {بِأَشْيَاعِهِمْ} بِأَمْثَالِهِمْ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {كَالْجَوَابِ} كَالْجَوْبَةِ مِنَ الأَرْضِ. الْخَمْطُ الأَرَاكُ. وَالأَثَلُ الطَّرْفَاءُ. الْعَرِمُ الشَّدِيدُ.
معاجزین کے آگے بڑھنے والا، بمعجزین ہمارے ہاتھ سے نکل جانے والے ، سَبَقُوا کا معنی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ لَا یُعجِزُونَ کا معنی ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے۔ یسبقونا ہم کو عاجز کر سکیں گے۔ بمعجزین کا معنی عاجز کرنے والے (جیسے مشہور قراءت ہے) اور معجزین (جو دوسری قراءت ہے) اس کا معنی ایک دوسرے پر غلبہ ڈونڈنے والے، ایک دوسرے کا عجز ظاہر کرنے والے۔ معشار کا معنی دسواں حصہ ۔ اکل پھل۔ باعد (جیسے مشہور قراءت ہے) اور (بعّد جو ابن کثیر کی قراءت ہے) دونوں ک معنی ایک ہے۔ اور مجاہد نے کہا لَا یَعزُبُ کا معنی اس سے غائب نہیں ہوتا ۔ العرم بند، ایک لال پانی تھا جس کو اللہ نے بند پر بھیجا۔ وہ پھٹ کر گر گیا اور میدان میں گڑھا پڑ گیا۔ باغ دونوں طرف سے اونچے ہو گئے۔ پھر پانی غائب ہو گیا۔ دونوں بٍاغ سوکھ گئے اور یہ لال پانی بن سے بہہ کر نیچے نہیں آیا تھا۔ بلکہ اللہ کا عذاب تھا (معلوم نہیں اللہ نے کہاں سے بھیجا) جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا۔ اور عمرو بن شرجیل نے کہا عرم کہتے ہیں بند کو یمن والوں کی زبان میں۔ اور دوسروں نے کہا عرم کا معنی نالہ۔ السَّبِغَاتِ زرہیں۔ اور مجاہد نے کہا یُل۔یُجازی کا معنی عذاب دئے جاتے ہیں ۔اَعِظُکُم بواحدۃ یعنی میں تم کو اللہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ مثنٰی دو دو، فرادٰی ایک ایک، التناوُش آخرت سے پھر دنیا کی طرف آنا (جو ممکن نہیں)۔ ما یشتھون ان کی خواہشات، مال اولاد اور دنیا کی زیب و زینت۔ باشیاعھم ان کے جوڑ والے دوسرے کافر۔ ابن عباسؓ نے کہا کالجواب جیسے کنٹے (پانی کے گڑھے) جیسے جَوبہ کہتے ہیں حوض کو۔ خمط پیلو کا درخت (جس سے مسواک بناتے ہیں) اثُل جھاؤ کے درخت العَرِم سخت زور کی۔
Chapter No: 1
باب {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ}
"... So much so that when fear is banished from their hearts, they say, 'What is it that your Lord has said?' They say, 'The truth. And He is the Most High, the Most Great.'" (V.34:23)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول حَتّٰی اِذَا فُزِّعَ عَن قَلُوبِھِم قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّکُم قَالُوا الحَقَّ وَ ھُوَ العَلِیُّ الکَبِیرُ کی تفسیر
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ، قَالُوا لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ ـ وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ـ فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ، فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ ثُمَّ يُلْقِيهَا الآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُقَالُ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ ".
Narrated By Abu Huraira : Allah's Prophet said, "When Allah decrees some order in the heaven, the angels flutter their wings indicating complete surrender to His saying which sounds like chains being dragged on rock. And when the state of fear disappears, they ask each other, "What has your Lord ordered? They say that He has said that which is true and just, and He is the Most High, the Most Great." (34.23). Then the stealthy listeners (devils) hear this order, and these stealthy listeners are like this, one over the other." (Sufyan, a sub-narrator demonstrated that by holding his hand upright and separating the fingers.) A stealthy listener hears a word which he will convey to that which is below him and the second will convey it to that which is below him till the last of them will convey it to the wizard or foreteller. Sometimes a flame (fire) may strike the devil before he can convey it, and sometimes he may convey it before the flame (fire) strikes him, whereupon the wizard adds to that word a hundred lies. The people will then say, 'Didn't he (i.e. magician) tell such-and-such a thing on such-and-such date?' So that magician is said to have told the truth because of the Statement which has been heard from the heavens."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سنتےہیں، شیطان آسمان کے نیچے یوں نیچے اوپر ہوتے ہیں، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیطان ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ جادوگر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آڈبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے (ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نے نہیں کہا تھا، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔
Chapter No: 2
باب قَوْلِهِ {إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ}
"... He (Muhammad (s.a.w)) is only a warner to you in face of a severe torment." (V.34:46)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اِن ھُوَ اِلَّا نَذِیرٌ لَّکُم بَینَ یَدَی عَذَابٍ شَدِیدٍ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ صَعِدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الصَّفَا ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ " يَا صَبَاحَاهْ " فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ قَالُوا مَا لَكَ قَالَ " أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ يُصَبِّحُكُمْ أَوْ يُمَسِّيكُمْ أَمَا كُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي ". قَالُوا بَلَى. قَالَ " فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ". فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ}.
Narrated By Ibn Abbas : One day the Prophet ascended Safa mountain and said, "Oh Sabah! " All the Quraish gathered round him and said, "What is the matter?" He said, Look, if I told you that an enemy is going to attack you in the morning or in the evening, would you not believe me?" They said, "Yes, we will believe you." He said, "I am a warner to you in face of a terrible punishment." On that Abu Lahab said, "May you perish ! Is it for this thing that you have gathered us?" So Allah revealed:
'Perish the hands of Abu Lahab!...' (111.1)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہﷺصفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا: یا صباحاہ! (لوگو دوڑو) اس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ نبی ﷺنے فرمایا: تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ ﷺنے فرمایا : پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخ) سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔اس پر ابولہب بولا:تو برباد ہوجائے ، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔ اس پر اللہ پاک نے آیت «تبت يدا أبي لهب» نازل فرمائی۔