بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ {صِرَاطٌ عَلَىَّ مُسْتَقِيمٌ}الْحَقُّ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ وَعَلَيْهِ طَرِيقُهُ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {لَعَمْرُكَ} لَعَيْشُكَ {قَوْمٌ مُنْكَرُونَ} أَنْكَرَهُمْ لُوطٌ وَقَالَ غَيْرُهُ {كِتَابٌ مَعْلُومٌ} أَجَلٌ {لَوْ مَا تَأْتِينَا} هَلاَّ تَأْتِينَا شِيَعٌ أُمَمٌ وَلِلأَوْلِيَاءِ أَيْضًا شِيَعٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {يُهْرَعُونَ} مُسْرِعِينِ {لِلْمُتَوَسِّمِينَ} لِلنَّاظِرِينَ {سُكِّرَتْ} غُشِّيَتْ {بُرُوجًا} مَنَازِلَ لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ {لَوَاقِحَ} مَلاَقِحَ مُلْقَحَةً {حَمَإٍ} جَمَاعَةُ حَمْأَةٍ وَهْوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ وَالْمَسْنُونُ الْمَصْبُوبِ {تَوْجَلْ} تَخَفْ {دَابِرَ} آخِرَ {لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ} الإِمَامُ كُلُّ مَا ائْتَمَمْتَ وَاهْتَدَيْتَ بِهِ {الصَّيْحَةُ} الْهَلَكَةُ.
مجاہدؒ نے کہا صِرَاط عَلیَّ مُسۡتَقِیۡم کا معنی سچاّ رستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے لَبِأِمَامٍ مُّبِیۡنٍ یعنے کھلے رستے پر اور ابن عباسؓ نے کہا لَعَمۡرُکَ کا معنی تیری زندگی کی قسم قَوم مُّنۡکَرون ۔لاطؑ نے ان کو اجنبی (پردیسی) سمجھا دوسرے لوگوں نے کہا کتاب مّعلوم کا معنی معین میعاد لَوۡمَا تَأتِیۡنَا کا معنی کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا شِیَع امّتیں اور کبھی دوستوں کو بھی شِیَع کہتے ہیں اور ابن عباسؓ نے کہا یُہۡرَعُوۡنَ کا معنےٰ دوڑتے جلدی کرتے لِلۡمُتَوَسّمِیۡنَ دیکھنے والوں کے لئے سُکِّرَتۡ ڈھانکی گئی بُرُوۡجَاً برج یعنی سورج اور چاند کی منزلیں لَوَاقِحَ مُلاقح کے معنوں میں ہے جو مُلۡقحۃً کی جمع ہے یعنی حاملہ کرنے والی حَمَاءٍ حَمۡأۃٍ کی جمع ہے بدبودار کیچڑ مسنون قالب میں ڈھالی گئی لَا تَوۡجَلۡ کا معنی مت ڈر۔دَابِرَ اخیر (دُم) لَبِأِمَامٍ مُبیۡن امام وہ شخص ہے جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے الصّیۡحَۃ ہلاکت۔
Chapter No: 1
باب قَوْلِهِ {إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ}
The Statement of Allah, "Except him (devil) that gains hearing by stealing, he is pursued by a clear flaming fire." (V.15:18)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اِلَّا مَنِ استَرَقَ السَّمعَ فَاَتبَعَہُ شِھَابٌ مُبِینٌ ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ ـ قَالَ عَلِيٌّ وَقَالَ غَيْرُهُ صَفْوَانٍ ـ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ، قَالُوا لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهْوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ ـ وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ، وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ الْيُمْنَى، نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ ـ فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ الْمُسْتَمِعَ، قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ، فَيُحْرِقَهُ وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُ حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الأَرْضِ ـ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الأَرْضِ ـ فَتُلْقَى عَلَى فَمِ السَّاحِرِ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ فَيَصْدُقُ، فَيَقُولُونَ أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ ".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ. وَزَادَ الْكَاهِنِ. وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ فَقَالَ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ وَقَالَ عَلَى فَمِ السَّاحِرِ. قُلْتُ لِسُفْيَانَ قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ. قَالَ نَعَمْ. قُلْتُ لِسُفْيَانَ إِنَّ إِنْسَانًا رَوَى عَنْكَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَيَرْفَعُهُ أَنَّهُ قَرَأَ فُزِّعَ. قَالَ سُفْيَانُ هَكَذَا قَرَأَ عَمْرٌو. فَلاَ أَدْرِي سَمِعَهُ هَكَذَا أَمْ لاَ. قَالَ سُفْيَانُ وَهْىَ قِرَاءَتُنَا.
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "When Allah has ordained some affair in the Heaven, the angels beat with their wings in obedience to His statement, which sounds like a chain dragged over a rock." ('Ali and other sub-narrators said, "The sound reaches them.") "Until when fear is banished from their (angels) hearts, they (angels) say, 'What was it that your Lord said? They say, 'The truth; And He is the Most High, the Most Great.' (34.23) Then those who gain a hearing by stealing (i.e. devils) will hear Allah's Statement: 'Those who gain a hearing by stealing, (stand one over the other like this).
(Sufyan, to illustrate this, spread the fingers of his right hand and placed them one over the other horizontally.) A flame may overtake and burn the eavesdropper before conveying the news to the one below him; or it may not overtake him till he has conveyed it to the one below him, who in his turn, conveys it to the one below him, and so on till they convey the news to the earth. (Or probably Sufyan said, "Till the news reaches the earth.") Then the news is inspired to a sorcerer who would add a hundred lies to it. His prophecy will prove true (as far as the heavenly news is concerned). The people will say. 'Didn't he tell us that on such-and-such a day, such-and-such a thing will happen? We have found that is true because of the true news heard from heaven."
Narrated By Abu Huraira : (The same Hadith above, starting: 'When Allah has ordained some affair...') In this narration the word foreteller is added to the word wizard.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے نبیﷺسے روایت کی کہ آپﷺنے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے(مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے «صفوان» کے بعد«ينفذهم ذلك» (جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے) کے الفاظ کہے ہیں۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں (ایک پر ایک) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے۔ (کبھی سفیان نے یوں کہا) پھر وہ بات جادوگر( نجومی) کے منہ پر ڈالی جاتی ہے۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہو گا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔
Chapter No: 2
باب قَوْلِهِ {وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ}
The Statement of Allah, "And verily, the dwellers of Al-Hijr (Thamud people) denied the Messengers." (V.15:80)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ لَقَد کَذَّبَ اَصحَابُ الحِجرِ المُرسَلِینَ ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ لأَصْحَابِ الْحِجْرِ " لاَ تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ إِلاَّ أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ فَلاَ تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ "
Narrated By 'Abdullah bin 'Umar : (While we were going for the Battle of Tabuk and when we reached the places of the dwellers of Al-Hijr), Allah's Apostle said about the dwellers of Al-Hijr (to us). "Do not enter (the dwelling places) of these people unless you enter weeping, but if you weep not, then do not enter upon them, lest you be afflicted with what they were afflicted with."
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا تھا کہ اس قوم کی بستی سے جب گزرنا ہی پڑگیا ہے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر اس میں مت جاؤ۔ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آئے جو ان پر آیا تھا۔
Chapter No: 3
باب قَوْلِهِ {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ}
The Statement of Allah, "And indeed, We have bestowed upon you seven Al-Mathani (Surah Al-Fatiha) and the Grand Quran." (V.15:87)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَلَقَد اٰتَینَاکَ سَبعًا مِنَ المَثَانِی وَ القُراٰنُ العَظِیمَ ۔ کی تفسیر
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا أُصَلِّي فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ فَقَالَ " مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ ". فَقُلْتُ كُنْتُ أُصَلِّي. فَقَالَ " أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ} ثُمَّ قَالَ أَلاَ أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ " فَذَهَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ فَذَكَّرْتُهُ فَقَالَ "{الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ "
Narrated By Abu Said Al-Mualla : While I was praying, the Prophet passed by and called me, but I did not go to him till I had finished my prayer. When I went to him, he said, "What prevented you from coming?" I said, "I was praying." He said, "Didn't Allah say" "O you who believes Give your response to Allah (by obeying Him) and to His Apostle." (8.24) Then he added, "Shall I tell you the most superior Sura in the Qur'an before I go out of the mosque?" When the Prophet intended to go out (of the Mosque), I reminded him and he said, "That is: "Alhamdu-lillahi Rabbil-'Alamin (Surat-al-fatiha)' which is the seven oft repeated verses (Al-Mathani) and the Grand Qur'an which has been given to me."
حضرت ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺمیرے پاس سے گزرے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نبیﷺنے مجھے بلایا۔ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺنے دریافت فرمایا : فوراً کیوں نہیں آئے؟ عرض کیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا : کیا اللہ نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا ہے کہ اے ایمان والو! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو لبیک کہو، پھر آپ ﷺنے فرمایا :کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاؤں۔ پھر آپ (بتانے سے پہلے) مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلائی۔ آپ ﷺنے فرمایا : سورۃ فاتحہ «الحمد لله رب العالمين» یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ "
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "The Um (substance) of the Qur'an is the seven oft-repeated verses (Al-Mathaini) and is the Great Qur'an (i.e. Surat-al-Fatiha)."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اُمّ القرآن یعنی (سورہ فاتحہ) یہی سبع مثانی ہے۔ اور قرآن عظیم ہے۔
Chapter No: 4
باب قَوْلِهِ {الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ}
The Statement of Allah, "Who have made the Quran into parts." (V.15:91)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اَلَّذِینَ جَعَلُوا القُرآنَ عِضِینَ ۔ کی تفسیر
{الْمُقْتَسِمِينَ} الَّذِينَ حَلَفُوا وَمِنْهُ {لاَ أُقْسِمُ} أَىْ أُقْسِمُ وَتُقْرَأُ لأُقْسِمُ. {قَاسَمَهُمَا} حَلَفَ لَهُمَا وَلَمْ يَحْلِفَا لَهُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {تَقَاسَمُوا} تَحَالَفُوا
اَلمُقتَسِمِینَ سے وہ کافر مراد ہیں جنہوں نے (رات کو جا کر صالحؑ پیغمبر کو مار ڈالنے کی) قسم کھائی تھی۔ اسی سے نکلا ہے لَا اُقسِمُ (میں قسم کھاتا ہوں) بعضوں نے اس کو لَاُقسِمُ (لام تاکید سے) پڑھا ہے۔ اسی سے وَقَاسَمَھُمَا یعنی شیطان نے آدمؑ اور حوا سے قسم کھائی۔ اور آدمؑ اور حوّا نے قسم نہیں کھائی تھی۔ اور مجاہد نے کہا تَقَاسَمُوا کا معنی یہ ہے کہ صالح پیغمرؑ کو رات کو جا کر مار ڈالنے کی قسم انہوں نے کھائی۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رضى الله عنهما {الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ} قَالَ هُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، جَزَّءُوهُ أَجْزَاءً، فَآمَنُوا بِبَعْضِهِ وَكَفَرُوا بِبَعْضِهِ.
Narrated By Ibn Abbas : Those who have made their Scripture into parts are the people of the Scripture who divided it into portions and believed in a part of it and disbelieved the other.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا آیت «الذين جعلوا القرآن عضين» جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کر رکھے ہیں کے متعلق کہا کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ انہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ {كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ} قَالَ آمَنُوا بِبَعْضٍ وَكَفَرُوا بِبَعْضٍ، الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى
Narrated By Ibn Abbas : Concerning: "As We sent down (the Scripture) on those who are divided (Jews and Christians)." (15.90) They believed in part of it and disbelieved in the other, are the Jews and the Christians. the Christians.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ آیت «كما أنزلنا على المقتسمين» سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں ۔ انہوں نے کچھ قرآن مانا اور کچھ نہیں مانا۔
Chapter No: 5
باب قَوْلِهِ {وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِين}
The Statement of Allah, "And worship your Lord until there comes unto you the certainty (of death)." (V.15:99)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ اعبُد رَبَّکَ حَتَّی یَاتِیَکَ الیَقِینُ ۔ کی تفسیر۔
قَالَ سَالِمٌ {الْيَقِينُ} الْمَوْتُ
Salim said, "The certainty means the death."
سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے کہا اس آیت میں یقین سے موت مراد ہے۔