بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
{مِنْ خِلاَلِهِ} مِنْ بَيْنِ أَضْعَافِ السَّحَابِ. {سَنَا بَرْقِهِ} الضِّيَاءُ. {مُذْعِنِينَ}. يُقَالُ لِلْمُسْتَخْذِي مُذْعِنٌ، أَشْتَاتًا وَشَتَّى وَشَتَاتٌ وَشَتٌّ وَاحِدٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا} بَيَّنَّاهَا. وَقَالَ غَيْرُهُ سُمِّيَ الْقُرْآنُ لِجَمَاعَةِ السُّوَرِ، وَسُمِّيَتِ السُّورَةُ لأَنَّهَا مَقْطُوعَةٌ مِنَ الأُخْرَى فَلَمَّا قُرِنَ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ سُمِّيَ قُرْآنًا. وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عِيَاضٍ الثُّمَالِيُّ الْمِشْكَاةُ الْكُوَّةُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى {إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ} تَأْلِيفَ بَعْضِهِ إِلَى بَعْضٍ، {فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ} فَإِذَا جَمَعْنَاهُ وَأَلَّفْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، أَىْ مَا جُمِعَ فِيهِ، فَاعْمَلْ بِمَا أَمَرَكَ، وَانْتَهِ عَمَّا نَهَاكَ اللَّهُ، وَيُقَالُ لَيْسَ لِشِعْرِهِ قُرْآنٌ أَىْ تَأْلِيفٌ، وَسُمِّيَ الْفُرْقَانَ لأَنَّهُ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَيُقَالُ لِلْمَرْأَةِ مَا قَرَأَتْ بِسَلاً قَطُّ أَىْ لَمْ تَجْمَعْ فِي بَطْنِهَا وَلَدًا. وَقَالَ {فَرَّضْنَاهَا} أَنْزَلْنَا فِيهَا فَرَائِضَ مُخْتَلِفَةً وَمَنْ قَرَأَ {فَرَضْنَاهَا} يَقُولُ فَرَضْنَا عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ بَعْدَكُمْ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا} لَمْ يَدْرُوا لِمَا بِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ.
مِن خِلَالِہِ کا معنی بادل کے پروں کے پیچ میں سنا بَرقِہِ اس کی بجلی کی روشنی۔ مُذعِنِینَ مذعن کی جمع ہےیعنی عاجزی کرنے والا۔ اشتاتا شتّی، شتّاتاور شتٌّ سب کے ایک معنی ہیں یعنی الگ الگ۔ اور ابن عباسؓ نے کہا سورۃ اَنزَالنَاھَا کا معنی ہے ہم نے اس کو بیان کیا۔ اوروں نے کہا قرآن کئی سورتوں کو کہیں گے اور سورۃ ایک قطعہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہ دوسرے قطعہ سے علیحدہ کیا جاتا ہے چونکہ یہ قطعے ایک دوسرے سے نزدیک یعنی ملے ہوئے ہیں اس لئے ان کو قرآن کہتے ہیں (تو یہ قرن سے نکلاہے) اور سعید بن غیاث ثمالی نے کہا (اس کو ابن شاہین نے وصل کیا) مشکوٰۃ کہتے ہیں طاق کو۔ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے اور یہ جو (سورہ قیامہ میں) فرمایا ہم پر اس کا جمع کرنا اور قرآن کرنا ہے۔ تو قرآن سے اس کا جوڑنا اور ایک ٹکڑی سے دوسرا ٹکڑا ملانا مراد ہے۔ پھر فرمایا فَاِذَا قراناہ یعنی جب ہم کو جوڑ دیں اور مرتب کر دیں تو اس مجموعہ کی پیروی کر یعنی اس میں جس بات کا حکم ہے اس کو بجا لا اور جس کی اللہ نے ممانعت کی ہےاس سے باز رہ۔ اور عرب لوگ کہتے ہیں اس کے شعروں میں قرآن نہیں ہے۔ یعنی بے جوڑ شعر ہیں۔ اور قرآن کو فرقان بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور باطل کو جدا کرتا ہے۔ اور عورت کے حق میں کہتے ہیں ماقرات بسلا قطّ اس نے اپنے پیٹ میں بچہ کبھی نہیں رکھا۔ اور جس نے فرّضنا ھا تشدید سے پڑھا ہےتو یہ معنی ہو گا کہ ہم نے اس میں مختلف فرائض اتارے۔ اور جس نے فرضنا (تخفیف سے) پڑھا تو یہ معنی ہو گا ہم نے تم پر اور جو لوگ (قیامت تک) تمھارے بعد آئینگے ان پر فرض کیا۔مجاہد نے کہا اَ وِ الطِّفل الّذین لم یظھروا سے وہ کمسن بچے مراد ہیں جو کمسنی کی وجہ سے عورتوں کی شرمگاہ یا جماع سے واقف نہیں ۔ اور شعبی نے کہا اولی الارنۃ سے مراد وہ مرد ہیں جن کو عورتوں کی احتیاج نہ ہو۔ اور مجاہد نے کہا (اس کو طبری نے وصل کیا) وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں کا خیال نہ ہو۔
Chapter No: 1
باب قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ}
The Statement of Allah, "And for those who accuse their wives, but have no witnesses except themselves ..." (V.24:6)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ الَّذِینَ یَرمُونَ اَزوَاجَھُم وَ لَم یَکُن لَّھُم شُھَدَآءُ کی تفسیر
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عُوَيْمِرًا، أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلاَنَ فَقَالَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي رَجُلٍ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَأَتَى عَاصِمٌ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَسَائِلَ، فَسَأَلَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَرِهَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ ". فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْمُلاَعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، فَلاَعَنَهَا ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا، فَطَلَّقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي الْمُتَلاَعِنَيْنِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَلاَ أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلاَّ قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلاَ أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا، إِلاَّ قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا ". فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ، فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ.
Narrated By Sahl bin Saud : 'Uwaimir came to 'Asim bin 'Adi who was the chief of Bani Ajlan and said, "What do you say about a man who has found another man with his wife? Should he kill him whereupon you would kill him (i.e. the husband), or what should he do? Please ask Allah's Apostle about this matter on my behalf." Asim then went to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! (And asked him that question) but Allah's Apostle disliked the question," When 'Uwaimir asked 'Asim (about the Prophet's answer) 'Asim replied that Allah's Apostle disliked such questions and considered it shameful. "Uwaimir then said, "By Allah, I will not give up asking unless I ask Allah's Apostle about it." Uwaimir came (to the Prophet) and said, "O Allah's Apostle! A man has found another man with his wife! Should he kill him whereupon you would kill him (the husband, in Qisas) or what should he do?" Allah's Apostle said, "Allah has revealed regarding you and your wife's case in the Qur'an "So Allah's Apostle ordered them to perform the measures of Mula'ana according to what Allah had mentioned in His Book. So 'Uwaimir did Mula'ana with her and said, "O Allah's Apostle! If I kept her I would oppress her." So 'Uwaimir divorced her and so divorce became a tradition after them for those who happened to be involved in a case of Mula'ana. Allah's Apostle then said, "Look! If she (Uwaimir's wife) delivers a black child with deep black large eyes, big hips and fat legs, then I will be of the opinion that 'Uwaimir has spoken the truth; but if she delivers a red child looking like a Wahra then we will consider that 'Uwaimir has told a lie against her." Later on she delivered a child carrying the qualities which Allah's Apostle had mentioned as a proof for 'Uwaimir's claim; therefore the child was ascribed to its mother henceforth.
حضرت سہل بن سعد نے بیان کیا کہ عویمر،عاصم بن عدی کے پاس آئےوہ بنی عجلان کے سردار تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لوگوں کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پا لیتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دو گے! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے؟ رسول اللہﷺسے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتائیے گا۔ چنانچہ عاصم بن عدی، نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! (صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے) نبی ﷺنے ان مسائل (میں سوال و جواب) کو ناپسند فرمایا۔ جب عویمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ رسول اللہ ﷺنے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔ عویمر نے ان سے کہا : اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺسے اس بارے میں پوچھوں گا۔ چنانچہ وہ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہیے؟ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت نازل کی ہے۔ پھر آپﷺ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر انہوں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لیے عویمر نے اسے طلاق دے دی۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا۔پھر رسول اللہ ﷺنےفرمایا: دیکھتے رہو اس عورت کو جو بچہ پیدا ہوا اگر وہ سانولا ، کالی آنکھوں ، بڑے سرین اور موٹی پنڈلیوں والا ہو ا تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی کے بارے میں سچ کہا تھا۔ اور اگر بچہ گرگٹ کی طرح سرخ رنگ کا پیدا ہو تو میرے خیال کے مطابق عویمر نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہے ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو رسول اللہ ﷺبتائی ہوئی علامات کے مطابق تھا اس اعتبار سے عویمر سچا نکلا ۔اس کے بعد وہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔
Chapter No: 2
باب {وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ}
"And the fifth (testimony should be) the invoking of the Curse of Allah on him if he is of those who tell a lie (against her)." (V.24:7)
اب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ الخَامِسَۃُ اَنَّ لَعنَۃَ اللہِ عَلَیہِ اِن کَانَ مِنَ الکَاذِبِین کی تفسیر
حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلاً، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلاً رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمَا مَا ذُكِرَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ التَّلاَعُنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " قَدْ قُضِيَ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ ". قَالَ فَتَلاَعَنَا، وَأَنَا شَاهِدٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَفَارَقَهَا فَكَانَتْ سُنَّةً أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ وَكَانَتْ حَامِلاً، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا، وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا.
Narrated By Sahl bin Sad : A man came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Suppose a man saw another man with his wife, should he kill him whereupon you might kill him (i.e. the killer) (in Qisas) or what should he do?" So Allah revealed concerning their case what is mentioned of the order of Mula'ana. Allah's Apostle said to the man, "The matter between you and your wife has been decided." So they did Mula'ana in the presence of Allah's Apostle and I was present there, and then the man divorced his wife. So it became a tradition to dissolve the marriage of those spouses who were involved in a case of Mula'ana. The woman was pregnant and the husband denied that he was the cause of her pregnancy, so the son was (later) ascribed to her. Then it became a tradition that such a son would be the heir of his mother, and she would inherit of him what Allah prescribed for her.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیاکہ ایک صاحب (یعنی عویمر) رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھا ہو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں قاتل کو قتل کر دیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہئے؟ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو آیات نازل کیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ چنانچہ نبی ﷺنے ان سے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں اس وقت نبی ﷺکی خدمت میں حاضر تھا۔ پھر آپ ﷺنے دونوں میں جدائی کرا دی اور دو لعان کرنے والوں میں اس کے بعد یہی طریقہ قائم ہو گیا کہ ان میں جدائی کرا دی جائے۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں، لیکن انہوں نے اس کا بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو اسے ماں ہی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ پھر میراث کا یہ طریقہ رائج ہوا کہ بیٹا ماں کا وارث ہوتا ہے اور ماں اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصہ کے مطابق بیٹے کی وارث ہوتی ہے۔
Chapter No: 3
باب: {وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ}الآية
"But it shall avert the punishment (of stoning to death) from her ..." (V.24:8)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ یَدرَاُ عَنھَا العَذَابَ کی تفسیر
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ ". فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا رَأَى أَحَدُنَا عَلَى امْرَأَتِهِ رَجُلاً يَنْطَلِقُ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ. فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " الْبَيِّنَةَ وَإِلاَّ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ " فَقَالَ هِلاَلٌ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ، فَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ} فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ {إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ} فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَجَاءَ هِلاَلٌ، فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ". ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ وَقَّفُوهَا، وَقَالُوا إِنَّهَا مُوجِبَةٌ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا تَرْجِعُ ثُمَّ قَالَتْ لاَ أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَهْوَ لِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ ". فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لَوْلاَ مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ ".
Narrated By Ibn Abbas : Hilal bin Umaiya accused his wife of committing illegal sexual intercourse with Sharik bin Sahma' and filed the case before the Prophet. The Prophet said (to Hilal), "Either you bring forth a proof (four witnesses) or you will receive the legal punishment (lashes) on your back." Hilal said, "O Allah's Apostle! If anyone of us saw a man over his wife, would he go to seek after witnesses?" The Prophet kept on saying, "Either you bring forth the witnesses or you will receive the legal punishment (lashes) on your back." Hilal then said, "By Him Who sent you with the Truth, I am telling the truth and Allah will reveal to you what will save my back from legal punishment." Then Gabriel came down and revealed to him:
'As for those who accuse their wives...' (24.6-9) The Prophet recited it till he reached: '...(her accuser) is telling the truth.' Then the Prophet left and sent for the woman, and Hilal went (and brought) her and then took the oaths (confirming the claim). The Prophet was saying, "Allah knows that one of you is a liar, so will any of you repent?" Then the woman got up and took the oaths and when she was going to take the fifth one, the people stopped her and said, "It (the fifth oath) will definitely bring Allah's curse on you (if you are guilty)." So she hesitated and recoiled (from taking the oath) so much that we thought that she would withdraw her denial. But then she said, "I will not dishonour my family all through these days," and carried on (the process of taking oaths). The Prophet then said, "Watch her; if she delivers a black-eyed child with big hips and fat shins then it is Sharik bin Sahma's child." Later she delivered a child of that description. So the Prophet said, "If the case was not settled by Allah's Law, I would punish her severely."
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا حضرت ہلال بن امیہ نے نبیﷺکے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی۔ نبی ﷺنے فرمایا : گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو دیکھتا ہے تو کیا وہ ایسی حالت میں گواہ تلاش کرنے جائے گا؟ لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی۔ اس پر حضرت ہلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ اس معاملے میں ضرور کوئی ایسا حکم نازل کرے گا جس سے میری پیٹھ سزا سے بری ہوجائے گی۔اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی «والذين يرمون أزواجهم» سے «إن كان من الصادقين»۔ (جس میں لعان کا حکم ہے) جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو نبیﷺنے حضرت ہلال کی بیوی کو بلا بھیجا۔ حضرت ہلال رضی اللہ عنہ آئے اور پہلے انہوں نے گواہی دی جبکہ نبی ﷺساتھ ساتھ فرمارہے تھے : دیکھو تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے پر تیار نہیں ہے ؟اس کے بعد اس کی بیوی کھڑی ہوئی اس نے بھی چار گواہیاں دے دیں۔ جب پانچویں گواہی کا وقت آیا تو لوگوں نے اسے ٹھہرایا اور سمجھایا کہ پانچویں گواہی تمہیں سزا میں مبتلا کردے گی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عورت یہ بات سن کر ذرا جھجکی اور رکی ہم سمجھے کہ وہ اپنا بیان والس لے لیے گی مگر وہ کہنے لگی کہ میں اپنی قوم کو تمام عمر کےلیے رسوا نہیں کرنا چاہتی ۔ پھر اس نے پانچویں گواہی بھی دے دی۔ نبیﷺنے فرمایا: دیکھتے رہو کہ اگر اس عورت کے ہاں کالی آنکھوں ، موٹے سرین اور فربہ پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کے نطفہ ہی سے ہوگا۔چنانچہ اس عورت کے ہاں اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا۔ اس وقت نبیﷺنے فرمایا: اگر اللہ کا حکم (لعان ) نازل نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کو ٹھیک ٹھیک سزا دیتا۔
Chapter No: 4
باب قَوْلِهِ {وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ}
The Statement of Allah, "And the fifth (testimony) should be that the Wrath of Allah be upon her if he (her husband) speaks the truth." (V.24:9)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ الخَامِسَۃُ اَنَّ غَضِبَ اللہِ عَلَیھَا اِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِین الایہ کی تفسیر
حَدَّثَنَا مُقَدَّمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمِّي الْقَاسِمُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، رَمَى امْرَأَتَهُ فَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَلاَعَنَا كَمَا قَالَ اللَّهُ، ثُمَّ قَضَى بِالْوَلَدِ لِلْمَرْأَةِ وَفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ.
Narrated By Ibn Umar : A man accused his wife of illegal sexual intercourse and denied his paternity to her (conceived) child during the lifetime of Allah's Apostle. Allah's Apostle ordered them both to do Mula'ana as Allah decreed and then gave his decision that the child would be for the mother, and a divorce decree was issued for the couple involved in a case of Mula'ana.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی پر رسول اللہﷺکے زمانہ میں ایک غیر مرد کے ساتھ تہمت لگائی اور کہا :کہ عورت کا حمل میرا نہیں ہے۔ چنانچہ نبی ﷺکے حکم سے دونوں میاں بیوی نے اللہ کے فرمان کے مطابق لعان کیا۔ اس کے بعد نبی ﷺنے بچہ کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وہ عورت ہی کا ہو گا اور لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی میں جدائی کروا دی۔
Chapter No: 5
باب قَوْلِهِ {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ }الآية
The Statement of Allah, "Verily! Those who brought forth the slander (against Aisha) are a group among you." (V.24:11)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول اِنَّ الَّذِینَ جَآءُوا بِالافک الخ کی تفسیر۔
{أَفَّاكٍ}:كَذَّابٍ
اِفکٌ جھوٹی تہمت اسی طرحافّاک بہت جھوٹ بولنے والا
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها – {وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ} قَالَتْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ.
Narrated By 'Aisha : And as for him among them who had the greater share...' (24.11) was Abdullah bin Ubai bin Salul.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ" وَ الَّذِی تَوَلّٰی کِبرَہُ" یعنی جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا سے عبداللہ بن ابی سلول (منافق) مراد ہے۔
Chapter No: 6
باب {لَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ، وَالْمُؤْمِنَاتُ، بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا}
"Why then did not the believers, men and women, when you heard it (the slander) think good of their own people and say, 'This (charge) is an obvious lie ... then with Allah they are the liars." (V.24:12-13)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول لَو لَا اِذ سَمِعتُمُوہُ ظَنَّ المُؤمِنِینَ وَ المُؤمِنَاتُ بِاَنفُسِھِم خَیرًا الی قولہ الکَاذِبُون کی تفسیر
إِلَى قَولِهِ:{الْكَاذِبُونَ}
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ الَّذِي حَدَّثَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، فَخَرَجَ سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ مَا نَزَلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ وَقَفَلَ، وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي وَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي، فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ رَكِبْتُ، وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُثْقِلْهُنَّ اللَّحْمُ، إِنَّمَا تَأْكُلُ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا، فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ، وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلاَ مُجِيبٌ، فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَىَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ، وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَأَدْلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي، فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي، وَاللَّهِ مَا كَلَّمَنِي كَلِمَةً وَلاَ سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ، حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدَيْهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ، بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى الإِفْكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَىٍّ ابْنَ سَلُولَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا، وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الإِفْكِ، لاَ أَشْعُرُ بِشَىْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَهْوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لاَ أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اللَّطَفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي، إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ " كَيْفَ تِيكُمْ ". ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَذَاكَ الَّذِي يَرِيبُنِي، وَلاَ أَشْعُرُ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقَهْتُ، فَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ، وَهْوَ مُتَبَرَّزُنَا، وَكُنَّا لاَ نَخْرُجُ إِلاَّ لَيْلاً إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا، وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الأُوَلِ فِي التَّبَرُّزِ قِبَلَ الْغَائِطِ، فَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ، وَهْىَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي، قَدْ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا، فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ. فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلاً شَهِدَ بَدْرًا قَالَتْ أَىْ هَنْتَاهُ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ قَالَتْ قُلْتُ وَمَا قَالَ فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَدَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَعْنِي سَلَّمَ ثُمَّ قَالَ " كَيْفَ تِيكُمْ ". فَقُلْتُ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَىَّ قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، قَالَتْ فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجِئْتُ أَبَوَىَّ فَقُلْتُ لأُمِّي يَا أُمَّتَاهْ، مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ، هَوِّنِي عَلَيْكَ فَوَاللَّهِ، لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلاَّ كَثَّرْنَ عَلَيْهَا. قَالَتْ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ، وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ حَتَّى أَصْبَحْتُ أَبْكِي فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ، يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، قَالَتْ فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ، وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ مِنَ الْوُدِّ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهْلَكَ، وَمَا نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، قَالَتْ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَرِيرَةَ فَقَالَ " أَىْ بَرِيرَةُ، هَلْ رَأَيْتِ عَلَيْهَا مِنْ شَىْءٍ يَرِيبُكِ ". قَالَتْ بَرِيرَةُ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَعْذَرَ يَوْمَئِذٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ عَلَى الْمِنْبَرِ " يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ، قَدْ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً، مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ مَعِي ". فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ، إِنْ كَانَ مِنَ الأَوْسِ، ضَرَبْتُ عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ، أَمَرْتَنَا، فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ، قَالَتْ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهْوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلاً صَالِحًا، وَلَكِنِ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ لِسَعْدٍ كَذَبْتَ، لَعَمْرُ اللَّهِ لاَ تَقْتُلُهُ، وَلاَ تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهْوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدٍ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ كَذَبْتَ، لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ، فَتَثَاوَرَ الْحَيَّانِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، قَالَتْ فَمَكُثْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، قَالَتْ فَأَصْبَحَ أَبَوَاىَ عِنْدِي ـ وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا لاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَلاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ ـ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي، قَالَتْ فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَىَّ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَذِنْتُ لَهَا، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي، قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ قَالَتْ وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا، لاَ يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي، قَالَتْ فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ " أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ إِلَى اللَّهِ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ". قَالَتْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَقَالَتَهُ، قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، فَقُلْتُ لأَبِي أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا قَالَ. قَالَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ لأُمِّي أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَتْ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لاَ أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ، وَصَدَّقْتُمْ بِهِ فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لاَ تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي، وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لَكُمْ مَثَلاً إِلاَّ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ قَالَ {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} قَالَتْ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى، وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى، وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ، وَهْوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي يُنْزَلُ عَلَيْهِ، قَالَتْ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سُرِّيَ عَنْهُ وَهْوَ يَضْحَكُ، فَكَانَتْ أَوَّلُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا " يَا عَائِشَةُ، أَمَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَكِ ". فَقَالَتْ أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ. قَالَتْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ، لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلاَ أَحْمَدُ إِلاَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ. وَأَنْزَلَ اللَّهُ {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لاَ تَحْسِبُوهُ} الْعَشْرَ الآيَاتِ كُلَّهَا، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ، وَفَقْرِهِ وَاللَّهِ لاَ أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ {وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ، وَقَالَ وَاللَّهِ لاَ أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا. قَالَتْ عَائِشَةُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَسْأَلُ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي، فَقَالَ " يَا زَيْنَبُ مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ ". فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي، مَا عَلِمْتُ إِلاَّ خَيْرًا. قَالَتْ وَهْىَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ مِنْ أَصْحَابِ الإِفْكِ
Narrated By 'Aisha : (The wife of the Prophet) Whenever Allah's Apostle intended to go on a journey, he used to draw lots among his wives and would take with him the one on whom the lot had fallen. Once he drew lots when he wanted to carry out a Ghazwa, and the lot came upon me. So I proceeded with Allah's Apostle after Allah's order of veiling (the women) had been revealed and thus I was carried in my howdah (on a camel) and dismounted while still in it. We carried on our journey, and when Allah's Apostle had finished his Ghazwa and returned and we approached Medina, Allah's Apostle ordered to proceed at night. When the army was ordered to resume the homeward journey, I got up and walked on till I left the army (camp) behind. When I had answered the call of nature, I went towards my howdah, but behold ! A necklace of mine made of Jaz Azfar (a kind of black bead) was broken and I looked for it and my search for it detained me. The group of people who used to carry me, came and carried my howdah on to the back of my camel on which I was riding, considering that I was therein. At that time women were light in weight and were not fleshy for they used to eat little (food), so those people did not feel the lightness of the howdah while raising it up, and I was still a young lady. They drove away the camel and proceeded. Then I found my necklace after the army had gone. I came to their camp but found nobody therein so I went to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back in my search. While I was sitting at my place, I felt sleepy and slept. Safwan bin Al-Mu'attil As-Sulami Adh-Dhakw-ani was behind the army. He had started in the last part of the night and reached my stationing place in the morning and saw the figure of a sleeping person. He came to me and recognized me on seeing me for he used to see me before veiling. I got up because of his saying: "Inna Lillahi wa inna ilaihi rajiun," which he uttered on recognizing me. I covered my face with my garment, and by Allah, he did not say to me a single word except, "Inna Lillahi wa inna ilaihi rajiun," till he made his she-camel kneel down whereupon he trod on its forelegs and I mounted it. Then Safwan set out, leading the she-camel that was carrying me, till we met the army while they were resting during the hot midday. Then whoever was meant for destruction, fell in destruction, and the leader of the Ifk (forged statement) was 'Abdullah bin Ubai bin Salul. After this we arrived at Medina and I became ill for one month while the people were spreading the forged statements of the people of the Ifk, and I was not aware of anything thereof. But what aroused my doubt while I was sick, was that I was no longer receiving from Allah's Apostle the same kindness as I used to receive when I fell sick. Allah's Apostle would enter upon me, say a greeting and add, "How is that (lady)?" and then depart.
That aroused my suspicion but I was not aware of the propagated evil till I recovered from my ailment. I went out with Um Mistah to answer the call of nature towards Al-Manasi, the place where we used to relieve ourselves, and used not to go out for this purpose except from night to night, and that was before we had lavatories close to our houses. And this habit of ours was similar to the habit of the old 'Arabs (in the deserts or in the tents) concerning the evacuation of the bowels, for we considered it troublesome and harmful to take lavatories in the houses. So I went out with Um Mistah who was the daughter of Abi Ruhm bin Abd Manaf, and her mother was daughter of Sakhr bin Amir who was the aunt of Abi Bakr As-Siddiq, and her son was Mistah bin Uthatha. When we had finished our affair, Um Mistah and I came back towards my house. Um Mistah stumbled over her robe whereupon she said, "Let Mistah be ruined ! " I said to her, "What a bad word you have said! Do you abuse a man who has taken part in the Battle of Badr?' She said, "O you there! Didn't you hear what he has said?" I said, "And what did he say?" She then told me the statement of the people of the Ifk (forged statement) which added to my ailment. When I returned home, Allah's Apostle came to me, and after greeting, he said, "How is that (lady)?" I said, "Will you allow me to go to my parents?" At that time I intended to be sure of the news through them. Allah's Apostle allowed me and I went to my parents and asked my mother, "O my mother! What are the people talking about?" My mother said, "O my daughter! Take it easy, for by Allah, there is no charming lady who is loved by her husband who has other wives as well, but that those wives would find fault with her." I said, "Subhan Allah! Did the people really talk about that?"
That night I kept on weeping the whole night till the morning. My tears never stopped, nor did I sleep, and morning broke while I was still weeping, Allah's Apostle called 'Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration delayed, in order to consult them as to the idea of divorcing his wife. Usama bin Zaid told Allah's Apostle of what he knew about the innocence of his wife and of his affection he kept for her. He said, "O Allah's Apostle! She is your wife, and we do not know anything about her except good." But 'Ali bin Abi Talib said, "O Allah's Apostle! Allah does not impose restrictions on you; and there are plenty of women other than her. If you however, ask (her) slave girl, she will tell you the truth." 'Aisha added: So Allah's Apostle called for Barira and said, "O Barira! Did you ever see anything which might have aroused your suspicion? (as regards 'Aisha). Barira said, "By Allah Who has sent you with the truth, I have never seen anything regarding 'Aisha which I would blame her for except that she is a girl of immature age who sometimes sleeps and leaves the dough of her family unprotected so that the domestic goats come and eat it." So Allah's Apostle got up (and addressed) the people an asked for somebody who would take revenge on 'Abdullah bin Ubai bin Salul then. Allah's Apostle, while on the pulpit, said, "O Muslims! Who will help me against a man who has hurt me by slandering my family? By Allah, I know nothing except good about my family, and people have blamed a man of whom I know nothing except good, and he never used to visit my family except with me," Sad bin Muadh Al-Ansari got up and said, "O Allah's Apostle! By Allah, I will relieve you from him. If he be from the tribe of (Bani) Al-Aus, then I will chop his head off; and if he be from our brethren, the Khazraj, then you give us your order and we will obey it." On that, Sad bin 'Ubada got up, and he was the chief of the Khazraj, and before this incident he had been a pious man but he was incited by his zeal for his tribe. He said to Sad (bin Muadh), "By Allah the Eternal, you have told a lie! You shall not kill him and you will never be able to kill him!" On that, Usaid bin Hudair, the cousin of Sad (bin Muadh) got up and said to Sad bin 'Ubada, "You are a liar! By Allah the Eternal, we will surely kill him; and you are a hypocrite defending the hypocrites!" So the two tribes of Al-Aus and Al-Khazraj got excited till they were on the point of fighting with each other while Allah's Apostle was standing on the pulpit. Allah's Apostle continued quietening them till they became silent whereupon he became silent too. On that day I kept on weeping so much that neither did my tears stop, nor could I sleep. In the morning my parents were with me, and I had wept for two nights and a day without sleeping and with incessant tears till they thought that my liver would burst with weeping. While they were with me and I was weeping, an Ansari woman asked permission to see me. I admitted her and she sat and started weeping with me. While I was in that state, Allah's Apostle came to us, greeted, and sat down,. He had never sat with me since the day what was said, was said. He had stayed a month without receiving any Divine Inspiration concerning my case. Allah's Apostle recited the Tashahhud after he had sat down, and then said, "Thereafter, O 'Aisha! I have been informed such and-such a thing about you; and if you are innocent, Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then ask for Allah's forgiveness and repent to Him, for when a slave confesses his sin and then repents to Allah, Allah accepts his repentance." When Allah's Apostle had finished his speech, my tears ceased completely so that I no longer felt even a drop thereof. Then I said to my father, "Reply to Allah's Apostle on my behalf as to what he said." He said, "By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle." Then I said to my mother, "Reply to Allah's Apostle."
She said, "I do not know what to say to Allah's Apostle." Still a young girl as I was and though I had little knowledge of Qur'an, I said, "By Allah, I know that you heard this story (of the Ifk) so much so that it has been planted in your minds and you have believed it. So now, if I tell you that I am innocent, and Allah knows that I am innocent, you will not believe me; and if I confess something, and Allah knows that I am innocent of it, you will believe me. By Allah, I cannot find of you an example except that of Joseph's father: "So (for me) patience is most fitting against that which you assert and it is Allah (Alone) Whose help can be sought. Then I turned away and lay on my bed, and at that time I knew that I was innocent and that Allah would reveal my innocence. But by Allah, I never thought that Allah would sent down about my affair, Divine Inspiration that would be recited (forever), as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something that was to be recited: but I hoped that Allah's Apostle might have a vision in which Allah would prove my innocence. By Allah, Allah's Apostle had not left his seat and nobody had left the house when the Divine Inspiration came to Allah's Apostle. So there overtook him the same hard condition which used to overtake him (when he was Divinely Inspired) so that the drops of his sweat were running down, like pearls, though it was a (cold) winter day, and that was because of the heaviness of the Statement which was revealed to him. When that state of Allah's Apostle was over, and he was smiling when he was relieved, the first word he said was, "'Aisha, Allah has declared your innocence." My mother said to me, "Get up and go to him." I said, "By Allah, I will not go to him and I will not thank anybody but Allah." So Allah revealed: "Verily! They who spread the Slander are a gang among you. Think it not..." (24.11-20).
When Allah revealed this to confirm my innocence, Abu Bakr As-Siddiq who used to provide for Mistah bin Uthatha because of the latter's kinship to him and his poverty, said, "By Allah, I will never provide for Mistah anything after what he has said about 'Aisha". So Allah revealed:
"Let not those among you who are good and are wealthy swear not to give (help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's Cause. Let them Pardon and forgive (i.e. do not punish them). Do you not love that should forgive you? Verily Allah is Oft-forgiving. Most Merciful." (24.22)
Abu Bakr said, "Yes, by Allah, I wish that Allah should forgive me." So he resumed giving Mistah the aid he used to give him before and said, "By Allah, I will never withold it from him at all." 'Aisha further said: Allah's Apostle also asked Zainab bint Jahsh about my case. He said, "O Zainab! What have you seen?" She replied, "O Allah's Apostle! I protect my hearing and my sight (by refraining from telling lies). I know nothing but good (about 'Aisha)." Of all the wives of Allah's Apostle, it was Zainab who aspired to receive from him the same favour as I used to receive, yet, Allah saved her (from telling lies) because of her piety. But her sister, Hamna, kept on fighting on her behalf so she was destroyed as were those who invented and spread the slander.
حضرت ابن شہاب سے مروی ہے انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس تہمت سے بری کردیا۔ان تمام رایوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے بعض راوی کو دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقے سے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺکی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی ﷺسفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں (قضائے حاجت کے لیے) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آ گئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لیے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔ مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہو جائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لیے یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے (تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھا) رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ انہوں نے (دور سے) ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو «إنا لله» پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہو گئی وہ (خود پیدل) اونٹ کو آگے سے کھینچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکر سے اس وقت ملے جب وہ بھری دوپہر میں (دھوپ سے بچنے کے لیے) پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔ مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑ گئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ ﷺکی طرف سے لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ نبی ﷺاندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ نبی ﷺکے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ ایک دن جب (بیماری سے کچھ افاقہ تھا) کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح رضی اللہ عنہا بھی تھیں ہم مناصع کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لیے ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لیے ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جا کر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بدبو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ ابورہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضائے حاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی؟ میں نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا ہے؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہﷺاندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہو جائے گی۔ نبی ﷺنے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا :بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین و جمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کر دیا؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہو گئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں نبی ﷺنے حضرت علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لیے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو گئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی ﷺکو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ (یعنی خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) اس تہمت سے بَری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نبی ﷺکو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور حضرت علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی (بریرہ)سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی ﷺنے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا: بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺکھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ نبیﷺنے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مسلمانو! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی (عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق) ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہو گئے اور نبی ﷺبھی خاموش ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب (دوسری) صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ ﷺاندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک نبی ﷺمیرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ ﷺپر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد نبی ﷺنے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، امابعد! اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برات خود کر دے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہو گیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبیﷺاپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد (ابوبکر) سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ ﷺکو جواب دیجئے۔ انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ ﷺسے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی ﷺکی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیا عرض کروں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا (میں نے کہا کہ) اللہ کی قسم! میں تو یہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بَری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کر لوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس آپ لوگوں کے لیے کوئی مثال نہیں ہے سوا حضرت یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برات ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں (قرآن مجید کی آیت) نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ نبی ﷺمیرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری برات کر دے گا۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہﷺابھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ ﷺپر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ ﷺپسینے پسینے ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر جب نبی ﷺکی کیفیت ختم ہوئی تو آپﷺتبسم فرما رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ اے عائشہ! اللہ نے تمہیں بَری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ نبی ﷺکے سامنے (آپ کا شکر ادا کرنے کے لیے) کھڑی ہو جاؤ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی «إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم لا تحسبوه» کہ بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے مکمل دس آیتوں تک۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برات میں نازل کر دیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ اللہ کی قسم! اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم والسعة أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں بلکہ چاہئے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے، ہاں اللہ کی قسم! میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے ام المؤمنین زینب بن جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے کان اور میری آنکھ کو اللہ سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لیے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہو گئی۔
Chapter No: 7
باب قَوْلِهِ {وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ}
The Statement of Allah, "Had it not been for the Grace of Allah and His Mercy unto you in this world and in the Hereafter, a great torment would have touched you for that whereof you had spoken." (V.24:14)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ لَو لَا فَضلُ اللہِ عَلَیکُم وَ رَحمَتُہُ فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَۃ الخ کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ {تَلَقَّوْنَهُ} يَرْوِيهِ بَعْضُكُمْ عَنْ بَعْضٍ، {تُفِيضُونَ} تَقُولُونَ.
مجاہد نے کہا وَ اِذ تَلَقَّونَہُ کا معنی یہ ہے کہ ایک دوسرے کے منہ در منہ اس بات کو نقل کرنے لگے۔ تُفِیضُونَ (سورہ یونس) اس کا معنی تم کہتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ أُمِّ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ لَمَّا رُمِيَتْ عَائِشَةُ خَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا
Narrated By Um Ruman : 'Aisha's mother, When 'Aisha was accused, she fell down Unconscious.
حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ تھیں وہ فرماتی ہیں جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تہمت کی خبر سنی تو بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔
Chapter No: 8
باب {إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ}الآية
"When you were propagating it with your tongues, and uttering with your mouths that whereof you had no knowledge ..." (V.24:15)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول اِذ تَلَقَّونَہُ بِاَلسِنَتِکُم وَ تَقُولُونَ بِاَفوَاھِکُم مَا لَیسَ لَکُم بِہِ عِلمٌ کی تفسیر
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقْرَأُ {إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ}
Narrated By Ibn Abi Mulaika : I heard 'Aisha reciting: "When you invented a lie (and carry it) on your tongues." (24.15)
ابن ابی ملیکہ نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضي الله عنها سے سنا وہ اس آیت کو یوں پڑھتیں تھیں "اِذ تَلِقُونَہُ بِاَلسِنَتِکُم " یعنی لام کے کسرہ اور قاف کے تخفیف کے ساتھ پڑھتے تھے ۔ جس کا معنی ہے جھوٹ بولنا ۔ جب کہ مشہور قراءت لام کے فتحہ اور قاف مشدد کے ساتھ ہے « إِذْ تَلَقَّونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ » جس کا معنی : منہ در منہ بات نقل کرنا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ، وَهْىَ مَغْلُوبَةٌ قَالَتْ أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَىَّ. فَقِيلَ ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمِنْ وُجُوهِ الْمُسْلِمِينَ. قَالَتِ ائْذَنُوا لَهُ. فَقَالَ كَيْفَ تَجِدِينَكِ قَالَتْ بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ. قَالَ فَأَنْتِ بِخَيْرٍ ـ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ـ زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ. وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ فَقَالَتْ دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَىَّ وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا.
Narrated By Ibn Abu Mulaika : Ibn 'Abbas asked permission to visit 'Aisha before her death, and at that time she was in a state of agony. She then said. "I am afraid that he will praise me too much." And then it was said to her, "He is the cousin of Allah's Apostle and one of the prominent Muslims." Then she said, "Allow him to enter." (When he entered) he said, "How are you?" She replied, "I am Alright if I fear (Allah)." Ibn Abbas said, "Allah willing, you are Alright as you are the wife of Allah's Apostle and he did not marry any virgin except you and proof of your innocence was revealed from the Heaven." Later on Ibn Az-Zubair entered after him and 'Aisha said to him, "Ibn 'Abbas came to me and praised me greatly, but I wish that I was a thing forgotten and out of sight."
حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا وہ رسول اللہ ﷺکے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لیے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے فرمایا: پھر انہیں اندر بلا لو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا : اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی ہے۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ ﷺکی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا نبیﷺنے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی براءت(پاکدامنی) آسمان سے نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا : ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنه ـ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ نَحْوَهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ نِسْيًا مَنْسِيًّا.
Narrated By Al-Qasim : Ibn 'Abbas asked 'Aisha's permission to enter. Al-Qasim then narrated the whole Hadith (as in 277) but did not mention: "Would that I had been forgotten and out of sight."
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ « نِسْيًا مَنْسِيًّا» کا ذکر نہیں کیا۔
Chapter No: 9
باب {يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا}الآية
His (Allah) Statement, "And warns you not to repeat the like of it, forever." (V.24:17)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول یَعظُکُم اللہُ اَن تَعُودُوا لِمِثلِہِ اَبَدً ا الایہ کی تفسیر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ جَاءَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا قُلْتُ أَتَأْذَنِينَ لِهَذَا قَالَتْ أَوَلَيْسَ قَدْ أَصَابَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ. قَالَ سُفْيَانُ تَعْنِي ذَهَابَ بَصَرِهِ. فَقَالَ حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قَالَتْ لَكِنْ أَنْتَ. ..
Narrated By Masruq : 'Aisha said that Hassan bin Thabit came and asked permission to visit her. I said, "How do you permit such a person?" She said, "Hasn't he received a severely penalty?" (Sufyan, the sub-narrator, said: She meant the loss of his sight.) Thereupon Hassan said the following poetic verse:
"A chaste pious woman who arouses no suspicion. She never talks about chaste heedless women behind their backs.' On that she said, "But you are not so."
حضرت مسروق سے مروی ہے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کےلیے اجازت طلب کی۔ میں نے عرض کی کہ آپ انہیں اجازت دیتی ہیں؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا انہیں اس کی ایک بڑی سزا نہیں ملی ہے۔ سفیان نے کہا : ان کا اشارہ ان کے نابینا ہو جانے کی طرف تھا۔ پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ غافل اور پاکدامن عورتوں کا گوشت کھانے سے مکمل پرہیز کرتی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لیکن تو نے ایسا نہیں کیا۔
Chapter No: 10
باب {وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ}
The Statement of Allah, "And Allah makes the Ayat plain to you. And Allah is All-Knowing, All-Wise." (V.24:18)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمُ الاٰیَاتِ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ کی تفسیر
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ دَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى عَائِشَةَ فَشَبَّبَ وَقَالَ حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قَالَتْ لَسْتَ كَذَاكَ. قُلْتُ تَدَعِينَ مِثْلَ هَذَا يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ {وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ} فَقَالَتْ وَأَىُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى وَقَالَتْ وَقَدْ كَانَ يَرُدُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By Masruq : Hassan came to 'Aisha and said the following poetic Verse: 'A chaste pious woman who arouses no suspicion. She never talks against chaste heedless women behind their backs.' 'Aisha said, "But you are not," I said (to 'Aisha), "Why do you allow such a person to enter upon you after Allah has revealed:
"...and as for him among them who had the greater share therein'?" (24.11)
She said, "What punishment is worse than blindness?" She added, "And he used to defend Allah's Apostle against the pagans (in his poetry).
حضرت مسروق سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا، کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : لیکن اے حسان! تو ایسا نہیں ہے۔ بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کر چکا ہے «والذي تولى كبره منهم» کہ جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا۔ الخ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نابینا ہو جانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہو گا، پھر مزید انہوں نے فرمایا: حضرت حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے (کیا یہ شرف ان کے لیے کم ہے)۔