وَقَالَ مُجَاهِدٌ {الآيَةَ الْكُبْرَى} عَصَاهُ وَيَدُهُ، يُقَالُ النَّاخِرَةُ وَالنَّخِرَةُ، سَوَاءٌ مِثْلُ الطَّامِعِ وَالطَّمِعِ وَالْبَاخِلِ وَالْبَخِيلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ النَّخِرَةُ الْبَالِيَةُ، وَالنَّاخِرَةُ الْعَظْمُ الْمُجَوَّفُ الَّذِي تَمُرُّ فِيهِ الرِّيحُ فَيَنْخَرُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {الْحَافِرَةِ} الَّتِي أَمْرُنَا الأَوَّلُ إِلَى الْحَيَاةِ. وَقَالَ غَيْرُهُ {أَيَّانَ مُرْسَاهَا} مَتَى مُنْتَهَاهَا، وَمُرْسَى السَّفِينَةِ حَيْثُ تَنْتَهِي.
مجاہد نے کہا الاٰیۃ الکبرٰی سے مراد موسٰیؑ کا عصا اور ان کا ہاتھ ہے۔ عِظَامًا نَخِرَہ اور نَخِرَۃً دونوں طرح پڑھا ہے۔ جیسے طامع اور طمع اور باخل اور بخیل۔ بعضوں نے کہا نخرۃً اور نَاخِرَۃً میں فرق ہے۔ نخِرَۃً کہتے ہیں گلی ہوئی ہڈی کو اور ناخرۃ وہ ہڈی جس کے اندر ہوا جائے تو آواز نکلے۔ اور ابن عباسؓ نے کہا حَافِرَۃً ہماری وہ حالت جو (دنیا کی زندگی) میں ہے۔ اوروں نے کہا ایَّانَ مُرسٰھا یعنی اس کی انتہا (تھل) کہاں ہے۔ یہ مرسٰی سفینہ سے نکلا ہے۔ یعنی کشتی جہاں اخیر میں جا کر ٹھرتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ بِإِصْبَعَيْهِ هَكَذَا بِالْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ " بُعِثْتُ وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ ".
Narrated By Sahl bin Sad : I saw Allah's Apostle pointing with his index and middle fingers, saying. "The time of my Advent and the Hour are like these two fingers." The Great Catastrophe will overwhelm everything.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺکو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے : میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کےفاصلے برابر فاصلہ ہے۔