بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان ہے رحم والا
وَقَالَ مُجَاهِدٌ {رَهْوًا} طَرِيقًا يَابِسًا. {عَلَى الْعَالَمِينَ} عَلَى مَنْ بَيْنَ ظَهْرَيْهِ. {فَاعْتُلُوهُ} ادْفَعُوهُ. {وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ} أَنْكَحْنَاهُمْ حُورًا عِينًا يَحَارُ فِيهَا الطَّرْفُ. {تَرْجُمُونِ} الْقَتْلُ وَرَهْوًا سَاكِنًا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {كَالْمُهْلِ} أَسْوَدُ كَمُهْلِ الزَّيْتِ. وَقَالَ غَيْرُهُ {تُبَّعٍْ} مُلُوكُ الْيَمَنِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ يُسَمَّى تُبَّعًا، لأَنَّهُ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ، وَالظِّلُّ يُسَمَّى تُبَّعًا لأَنَّهُ يَتْبَعُ الشَّمْسَ.
مجاہد نے کہا رَھوًا کا معنی سوکھا رستہ۔ علی العالمین سے مراد اگلے زمانے کے لوگ ہیں۔ فَعتِلُوہُ اس کو دھکیل دو۔ زَوَّجنٰھُم بِحُورً عِین ہم نے بڑی بڑی آنکھوں والی جورو سے ان کا جوڑ لگا دیا جب کا جمال دیکھنے سے آنکھوں کو حیرانی ہوتی ہے۔تُرجُمُونِ مجھ کو قتل کرو۔ وَ رَھوًا تھما ہوا۔ ابن عباسؓ نے کہاکَالمُھلِ یعنی کالے تلچھٹ کی طرح۔ اوروں نے کہا تُبّع سے یعنی یمن کے باشندے مراد ہیں۔ ان کو تبع اس لئے کہا کرتے ہیں کہ ایک کے بعد ایک بادشاہ ہوتا۔ اور سایہ کو بھی تبع کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کے ساتھ رہتا ہے۔
Chapter No: 1
باب {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ}
The Statement of Allah, "Then wait you for the Day when the sky will bring forth a visible smoke." (V.44:10)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول فَارتَقِب یَومَ تَأتِی السَّمآءُ بِدُخَانٍ مُیِبین کی تفسیر۔
قَالَ قَتَادَةُ {فَارْتَقِبْ} فَانْتَظِرْ.
قتادہ نے کہا فارتقب کے معنی انتظار کر
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ مَضَى خَمْسٌ الدُّخَانُ وَالرُّومُ وَالْقَمَرُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ.
Narrated By Abdullah : Five things have passed, i.e. the smoke, the defeat of the Romans, the splitting of the moon, Al-Batsha (the defeat of the infidels in the battle of Badr) and Al-Lizam (the punishment).
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ (قیامت کی) پانچ علامتیں گزر چکی ہیں «الدخان» دھواں، «الروم» غلبہ روم، «القمر» چاند کا ٹکڑے ہونا،«والبطشة» پکڑ «واللزام» سزا و قید۔
Chapter No: 2
باب {يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ}
"Covering the people, this is a painful torment." (V.44:11)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول یَغشَی النَّاسَ ھَذَا عَذَابٌ اَلِیمٌ کی تفسیر
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا كَانَ هَذَا لأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ * يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} قَالَ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ. قَالَ " لِمُضَرَ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ ". فَاسْتَسْقَى فَسُقُوا. فَنَزَلَتْ {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ} فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} قَالَ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ.
Narrated By 'Abdullah : It (i.e., the imagined smoke) was because, when the Quraish refused to obey the Prophet, he asked Allah to afflict them with years of famine similar to those of (Prophet) Joseph. So they were stricken with famine and fatigue, so much so that they ate even bones. A man would look towards the sky and imagine seeing something like smoke between him and the sky because of extreme fatigue. So Allah revealed:
'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people; this is a painful of torment.' (44.10-11)
Then someone (Abu Sufyan) came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Invoke Allah to send rain for the tribes of Mudar for they are on the verge of destruction." On that the Prophet said (astonishingly) "Shall I invoke Allah) for the tribes of Mudar? Verily, you are a brave man!" But the Prophet prayed for rain and it rained for them. Then the Verse was revealed.
'But truly you will return (to disbelief).' (44.15) (When the famine was over and) they restored prosperity and welfare, they reverted to their ways (of heathenism) whereupon Allah revealed:
'On the Day when We shall seize you with a Mighty Grasp. We will indeed (then) exact retribution.' (44.16) The narrator said, "That was the day of the Battle of Badr."
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہ (قحط) اس لیے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ ﷺکی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ ﷺنے ان کے لیے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم»تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ نبی ﷺنے فرمایا : مضر کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی ﷺنے ان کے لیے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت«إنكم عائدون» نازل ہوئی (یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے (اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون»جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔
Chapter No: 3
باب قَوْلِهِ تَعَالَى: {رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ}
The Statement of Allah, "(They will say) Our Lord! Remove the torment from us, really we shall become believers." (V.44:12)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول رَبَّنَا اکشِف عَنَّا العَذَابَ اِنَّا مُؤمَنُون کی تفسیر
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لاَ تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ}
إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ قَالَ " اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ". فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ، حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ. قَالُوا {رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ} فَقِيلَ لَهُ إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا. فَدَعَا رَبَّهُ فَكَشَفَ عَنْهُمْ، فَعَادُوا، فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} إِلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ {إِنَّا مُنْتَقِمُونَ}
Narrated By Abdullah : It is a sign of having knowledge that, when you do not know something, you say: 'Allah knows better.' Allah said to his Prophet:
'Say: No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor am I one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist)' (38.86) When the Quraish troubled and stood against the Prophet he said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine like the seven years of Joseph." So they were stricken with a year of famine during which they ate bones and dead animals because of too much suffering, and one of them would see something like smoke between him and the sky because of hunger. Then they said: Our Lord! Remove the torment from us, really we are believers. (44.12) And then it was said to the Prophet (by Allah), "If we remove it from them. they will revert to their ways (of heathenism)." So the Prophet invoked his Lord, who removed the punishment from them, but later they reverted (to heathenism), whereupon Allah punished them on the day of the Battle of Badr, and that is what Allah's Statement indicates:
'Then watch for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible... we will indeed (then) exact retribution.' (44.10).
مسروق سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا: یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺسے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش نے نبی ﷺپر غلبہ حاصل کرلیا او رآپ کی نافرمانی کی تو آپﷺنے بددعا کی: اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا:اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔نبیﷺنے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين» آخر تک میں بیان ہوا ہے۔
Chapter No: 4
باب {أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ}
"How can there be for them an admonition (at the time when the torment has reached them), when a Messenger explaining things clearly, has already come to them." (V.44:13)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اَنَّی لَھُمُ الذِّکرٰی وَ قَد جَاءَھُم رَسُولٌ مُّبِین کی تفسیر
الذِّكْرُ وَالذِّكْرَى وَاحِدٌ
ذکر اور ذکرٰی دونوں کا ایک معنی ہے یعنی نصیحت لینا۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمَّا دَعَا قُرَيْشًا كَذَّبُوهُ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ " اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ". فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ ـ يَعْنِي ـ كُلَّ شَىْءٍ حَتَّى كَانُوا يَأْكُلُونَ الْمَيْتَةَ فَكَانَ يَقُومُ أَحَدُهُمْ فَكَانَ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ ثُمَّ قَرَأَ {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ * يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} حَتَّى بَلَغَ {إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلاً إِنَّكُمْ عَائِدُونَ} قَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ وَالْبَطْشَةُ الْكُبْرَى يَوْمَ بَدْرٍ.
Narrated By Masruq : I came upon 'Abdullah and he said, "When Allah's Apostle invited Quraish (to Islam), they disbelieved him and stood against him. So he (the Prophet) said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years of Joseph.' So they were stricken with a year of drought that destroyed everything, and they started eating dead animals, and if one of them got up he would see something like smoke between him and the sky from the severe fatigue and hunger." Abdullah then recited:
'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people. This is a painful torment... (till he reached)... We shall indeed remove the punishment for a while, but truly you will revert (to heathenism): (44.10-15) 'Abdullah added: "Will the punishment be removed from them on the Day of Resurrection?" He added," The severe grasp" was the Day of the Battle of Badr."
مسروق نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺنے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپﷺکو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی ﷺنے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم»تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف سے نظر آنے والا ایک دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیشک ہم تھوڑی دیر کےلیےاس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا قیامت کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے؟ فرمایا :کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔
Chapter No: 5
باب:{ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ}
"Then they had turned away from him (Prophet (s.a.w)) and said, '(He is) taught (by a human being), a madman.'" (V.44:14)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول ثُمَّ تَوَلَّوا عَنہُ وَ قَالُوا مُعَلَّمٌ مَّجنُون کی تفسیر
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم وَقَالَ {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ} فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ " اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ". فَأَخَذَتْهُمُ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَىْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ ـ فَقَالَ أَحَدُهُمْ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ ـ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ أَىْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ فَدَعَا ثُمَّ قَالَ " تَعُودُوا بَعْدَ هَذَا ". فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ ثُمَّ قَرَأَ {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} إِلَى {عَائِدُونَ} أَيُكْشَفُ عَذَابُ الآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَقَالَ أَحَدُهُمُ الْقَمَرُ وَقَالَ الآخَرُ الرُّومُ.
Narrated By Abdullah : Allah sent (the Prophet) Muhammad and said:
'Say, No wage do I ask of you for this (Qur'an) nor am I one of the pretenders (i.e. a person who pretends things which do not exist). (38.68) When Allah's Apostle saw Quraish standing against him, he said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years (of famine) of Joseph. So they were afflicted with a year of drought that destroyed everything, and they ate bones and hides. (One of them said), "And they ate hides and dead animals, and (it seemed to them that) something like smoke was coming out of the earth. So Abu Sufyan came to the Prophet and said, "O Muhammad! Your people are on the verge of destruction! Please invoke Allah to relieve them." So the Prophet invoked Allah for them (and the famine disappeared). He said to them. "You will revert (to heathenism) after that." 'Abdullah then recited:
'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible... but truly you will revert (to disbelief).' He added, "Will the punishment be removed from them in the Hereafter? The smoke and the grasp and the Al-Lizam have all passed." One of the sub-narrator said, "The splitting of the moon." And another said, "The defeat of the Romans (has passed)."
مسروق نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمدﷺکو مبعوث کیا اور آپﷺنے فرمایا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپﷺنے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔(پھر) قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے (سلیمان اور منصور) راویان حدیث میں سے ایک نے بیان کیا کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد ﷺ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی ﷺنے دعا فرمائی اور قحط ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ ﷺنے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين»تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔«عائدون» تک۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا؟دھواں ،سخت پکڑاور سزا اور قید گزر چکے۔ اس حدیث کے راویوں میں سے بعض نے کہا: شق قمر بھی ہوچکا ہے اور بعض نے کہا: اہل روم کا غلبہ بھی ہوچکا ہے ۔
Chapter No: 6
باب {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ}
"On the Day when We shall seize you with the greatest seizure (punishment). Verily, We will exact retribution." (V.44:16)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول یَومَ نَبطِشَ البَطشَۃَ الکُبرٰی اِنَّا مُنتَقِمُونَ کی تفسیر
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ اللِّزَامُ وَالرُّومُ وَالْبَطْشَةُ وَالْقَمَرُ وَالدُّخَانُ.
Narrated By 'Abdullah : Five things have passed: Al-Lizam, the defeat of the Romans, the mighty grasp, the splitting of the moon, and the smoke.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ پانچ نشانیاں گزر چکی ہیں۔ سزا و قید ، غلبہ روم ، سخت پکڑ ، چاند کا دو ٹکڑے ہونا ، اور دھواں۔