بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
قَالَ عِكرِمَةُ وَالضَّحَّاكُ: بالنَّبَطيّةِ.أَي: {طه} يَا رَجُلُ وَ قَالَ مُجَاهد:{أَلقَى}صَنَعَ. {أَزْرِي} ظَهْرِي. {فَيَسْحَتَكُمْ} يُهْلِكَكُمْ {الْمُثْلَى} تَأْنِيثُ الأَمْثَلِ، يَقُولُ بِدِينِكُمْ يُقَالُ خُذِ الْمُثْلَى خُذِ الأَمْثَلَ. {ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا} يُقَالُ هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ {فَأَوْجَسَ} أَضْمَرَ خَوْفًا فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً لِكَسْرَةِ الْخَاءِ. {فِي جُذُوعِ} أَىْ عَلَى جُذُوعِ. {خَطْبُكَ} بَالُكَ. {مِسَاسَ} مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا. {لَنَنْسِفَنَّهُ} لَنَذْرِيَنَّهُ. {قَاعًا} يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الأَرْضِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ} الْحُلِيُّ الَّذِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ. فَقَذَفْتُهَا فَأَلْقَيْتُهَا، {أَلْقَى} صَنَعَ. {فَنَسِيَ} مُوسَى، هُمْ يَقُولُونَهُ أَخْطَأَ الرَّبَّ. {لاَ يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً} الْعِجْلُ. {هَمْسًا} حِسُّ الأَقْدَامِ. {حَشَرْتَنِي أَعْمَى} عَنْ حُجَّتِي {وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا} فِي الدُّنْيَا. وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ {أَمْثَلُهُمْ} أَعْدَلُهُمْ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {هَضْمًا} لاَ يُظْلَمُ فَيُهْضَمُ مِنْ حَسَنَاتِهِ {عِوَجًا} وَادِيًا. {أَمْتًا} رَابِيَةً {سِيرَتَهَا} حَالَتَهَا الأُولَى {النُّهَى} التُّقَى {ضَنْكًا} الشَّقَاءُ {هَوَى} شَقِيَ {الْمُقَدَّسِ} الْمُبَارَكِ {طُوًى} اسْمُ الْوَادِي {بِمَلْكِنَا} بِأَمْرِنَا {مَكَانًا سِوًى} مَنْصَفٌ بَيْنَهُمْ. {يَبَسًا} يَابِسًا {عَلَى قَدَرٍ} مَوْعِدٍ {لاَ تَنِيَا} تَضْعُفَا.
عکرمہ اور ضحاک بن مزاحم نے کہا حبشی زبان میں طٰہ کا معنی او مرد کہتے ہیں جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے یا ٹک اٹک کر رک رک کر بات کرےتو اس کی زبان میں عقدہ (گرہ) ہے۔ اَزرِی میری پیٹھ۔ فَیُسحِتَکُم : تم کو ہلاک کرے۔ المثلٰی : امثل سے ہے مُثلی (اچھی بات) کو لے امثل یعنی بہتر کو لے۔ ثُمَّ ائتُوا صَفًّاعرب لوگ کہتے ہیں کیا آج تو صف میں گیا تھا یعنی نماز کے مقام میں (جہاں جمع ہو کر ) نماز پڑھتے ہیں (جیسے عید گاہ وغیرہ) فَاَوجَسَ دل میں سہم گیا خِیفَۃً اصل میں خوفۃ تھا واؤ بسبب کسرہ ما قبل ی ہو گئی۔ فِی جُذُوعِ النَّخلِ کھجور کی شاخوں پر فی ،علٰی کے معنوں میں ہے۔ حَطبُکَ یعنی تیرا کیا حال ہے۔ تو نے یہ کام کیوں کیا۔ مساس مصدر ہے ماسَہُ مِسَاسًا سے یعنی چھونا۔ لَنَنسِفَنَّہُ بکھیر ڈالیں گے (یعنی جلا کر راکھ دریا میں بہا دیں گے) قاع وہ زمین ہے جس کے اوپر پانی چڑھ آئےیعنی صاف ہموار (میدان) صَفصَفًا ہموار زمین۔ اور مجاہد نے کہا زِینَۃُ القُوم سے زیور مراد ہیں جو بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے مانگ کر لیا تھا۔۔ فَقَذَفتُھَا میں نے اس کو ڈال دیا۔ وَ کَذٰلِکَ اَلقَی السَّامِرِیُّ یعنی سامری نے بھی بنی اسرائیل کی طرح اپنا زیور ڈالا۔ فَنَسِی موسٰی یعنی سامری اور اس کے تابعدار لوگ کہنے لگے کہ موسٰی چوک گیا ہے کہ اپنے پروردگار بچھڑے کو یہاں چھوڑ کر کوہ طور پر گیا۔ لَا یَرجِعُ اِلَیھم قولًا یعنی یہ نہیں دیکھتے کہ بچھڑا ان کی بات چیت کا جواب تک نہیں دیتا۔ ھَمسًا پاؤں کی آہٹ، حَشَرتَنِی اعمٰی یعنی مجھے دینا میں دلیل اور حجت معلوم ہوتی تھی یہاں تو نے مجھے بالکل اندھا کیوں کر کے اٹھایا۔ اور ابن عباسؓ نے کہا لَعَلِّی اٰتِیکُم مِنھَا بِقَبَسٍ کے بیان میں کہ موسٰیؑ اور ان کے ساتھی رستہ بھول سا گئے تھے ادھر سردی میں مبتلا تھے۔ کہنے لگے اگر وہاں کوئی راستہ بنانے والا ملا تو بہتر ورنہ تھوڑی سی آگ تمھارے تاپنے کے لئے لے آؤنگا۔ سفیان بن عیینہ نے (اپنی تفسیر میں) کہا اَمثَلُھُم یعنی کا افضل اور سمجھدار آدمی۔ اور ابن عباسؓ نے کہا ھَضمًا یعنی اس پر ظلم نہ ہوگا اور اس کی نیکیوں کا ثواب کم نہ کیا جائے گا۔ عِوَجًا نالہ، کھڈا۔ اَمتًا ٹیلہ، بلندی۔ سِیرتَھَا الاُلٰی یعنی اگلی حالت پر،النُّھَی پرہیزگاری (یا عقل)۔ ضَنکًا بدبختی۔ ھَوَیٰ بد بخت ہوا۔ المقدس برکت والی طُوٰی اس وادی کا نام تھا۔ بملکنا بکسر میم، مشہور قراءت بفتحہ میم ہے (بعضوں نے بضمہ میم پڑھا ہے) یعنی اپنے اختیار اور اپنے حکم سے۔ سوٰی یعنی ہم میں اور تم میں برابر فاصلہ پر۔ یَبَسًا خشک، علٰی قدراپنے معین وقت پر (جو اللہ نے لکھ دیا ہے)۔ لاتَنِیَا خعیف مت بنو یا سستی نہ کرو۔
Chapter No: 1
باب قَوْلِهِ: {وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي}
The Statement of Allah, "And I have chosen you for Myself." (V.20:41)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول {وَاصطَنَعتُکَ لِنَفسِیۡ} کی تفسیر
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " الْتَقَى آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى لآدَمَ أَنْتَ الَّذِي أَشْقَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ لَهُ آدَمُ أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ، وَاصْطَفَاكَ لِنَفْسِهِ وَأَنْزَلَ عَلَيْكَ التَّوْرَاةَ قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَوَجَدْتَهَا كُتِبَ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي قَالَ نَعَمْ. فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ". الْيَمُّ الْبَحْرُ.
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "Adam and Moses met, and Moses said to Adam "You are the one who made people miserable and turned them out of Paradise." Adam said to him, "You are the one whom Allah selected for His message and whom He selected for Himself and upon whom He revealed the Torah." Moses said, 'Yes.' Adam said, "Did you find that written in my fate before my creation?' Moses said, 'Yes.' So Adam overcame Moses with this argument."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے پسند کیا اور خود اپنے لیے پسند کیا اور آپ پر تورات نازل کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جی ہاں۔ اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں معلوم ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ «اليم» کے معنی دریا کے ہیں۔
Chapter No: 2
باب:{وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لاَ تَخَافُ دَرَكًا وَلاَ تَخْشَى * فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُمْ مِنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ * وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى}
"And indeed We revealed to Musa (Moses) (saying), 'Travel by night with My slaves and strike a dry path for them in the sea, fearing neither to be overtaken nor being afraid.' Then Pharaoh pursued them with his hosts, but the sea-water completely overwhelmed them and covered them up. And Pharaoh led his people astray, and he did not guide them." (V.20:77-79)
باب:{وَلَقَد أوحَینَا ألَی مُوسَی أن أسرِ بِعِبَادِی فَاضرِب لَھم طَرِیقًا فِی البَحرِ یبَسًا لاَ تَخَافُ دَرَک ا وَلاَ تَخشَی * فَأتبَعَھم فِرعَونُ بِجُنُودِہ فَغَشِیھم مِنَ الیمِّ مَا غَشِیھم* وَأضَلَّ فِرعَونُ قَومَہُ وَمَا ھدَی} کی تفسیر
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، وَالْيَهُودُ تَصُومُ عَاشُورَاءَ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي ظَهَرَ فِيهِ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ فَصُومُوهُ ".
Narrated By Ibn Abbas : When Allah's Apostle arrived at Medina, he found the Jews observing the fast on the day of 'Ashura' (10th of Muharram). The Prophet asked them (about it) and they replied, "This is the day when Moses became victorious over Pharaoh." The Prophet said (to the Muslims), "We are nearer to Moses than they, so fast on this day."
حضرت ابن عباس سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہﷺمدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبیﷺنے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ آپﷺنے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کے زیادہ حقدار ہیں۔ مسلمانو! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو۔
Chapter No: 3
باب قَوْلِهِ {فَلاَ يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى}
The Statement of Allah Talah, "... So let him not get you both out of Paradise, so that you be distressed." (V.20:117)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول کی تفسیر
فَلَا ُیۡخِرجَنّکُمَا مِنَ الۡجَنّۃ فَتَشۡقیٰ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ النَّجَّارِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " حَاجَّ مُوسَى آدَمَ، فَقَالَ لَهُ أَنْتَ الَّذِي أَخْرَجْتَ النَّاسَ مِنَ الْجَنَّةِ بِذَنْبِكَ وَأَشْقَيْتَهُمْ. قَالَ قَالَ آدَمُ يَا مُوسَى أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلاَمِهِ أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي أَوْ قَدَّرَهُ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي ". قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "Moses argued with Adam and said to him (Adam), 'You are the one who got the people out of Paradise by your sin, and thus made them miserable." Adam replied, 'O Moses! You are the one whom Allah selected for His Message and for His direct talk. Yet you blame me for a thing which Allah had ordained for me before He created me?." Allah's Apostle further said, "So Adam overcame Moses by this Argument."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے بحث کی اور ان سے کہا کہ آپ ہی نے اپنی غلطی کے نتیجہ میں انسانوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا۔ حضرت آدم علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰﷺ! آپ کو اللہ نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا۔ کیا آپ ایک ایسی بات پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقرر کر دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بحث میں غالب آ گئے۔