Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Anfal (65.8)    سورة الأنفال

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔

 

Chapter No: 1

باب قَوْلُهُ ‏{‏يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ، قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ‏}‏

The Statement of Allah, "They ask you (O Muhammad (s.a.w)) about Al-Anfal (the spoils of war). Say, 'The spoils are for Allah and the Messenger (s.a.w).' So fear Allah and adjust all matters of difference among you ..." (V.8:1) "Verily! The worst of (moving) living creatures with Allah are the deaf and the dumb, those who understand not (the disbelievers)." (V.8:22)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول ‏یسألُونَک عَنِ الاؐنفَالِ، قُلِ الأنفَالُ لِلَّہ وَالرَّسُولِ کی تفسیر۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏الأَنْفَالُ‏}‏ الْمَغَانِمُ.قَالَ قَتَادَةُ ‏{‏رِيحُكُمْ‏}‏ الْحَرْبُ، يُقَالُ نَافِلَةٌ عَطِيَّةٌ‏

Ibn Abbas said, Al-Anfal means war booty.

ابن عباسؓ نے کہا انفال سے لوٹ کے مال مراد ہیں۔ قتادہ نے کہا وَ تَذھَبَ رِیحُکُم میں ریح سے لڑائی مراد ہے۔ نافلۃ (جس کی جمع انفال ہے) اس کا معنی ہے عطیہ۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ سُورَةُ الأَنْفَالِ قَالَ نَزَلَتْ فِي بَدْرٍ‏.‏ الشَّوْكَةُ الْحَدُّ ‏{‏مُرْدَفِينَ‏}‏ فَوْجًا بَعْدَ فَوْجٍ، رَدِفَنِي وَأَرْدَفَنِي جَاءَ بَعْدِي ‏{‏ذُوقُوا‏}‏ بَاشِرُوا وَجَرِّبُوا وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَوْقِ الْفَمِ ‏{‏فَيَرْكُمَهُ‏}‏ يَجْمَعُهُ‏.‏ ‏{‏شَرِّدْ‏}‏ فَرِّقْ ‏{‏وَإِنْ جَنَحُوا‏}‏ طَلَبُوا ‏{‏يُثْخِنَ‏}‏ يَغْلِبَ‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏مُكَاءً‏}‏ إِدْخَالُ أَصَابِعِهِمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَ‏{‏تَصْدِيَةً‏}‏ الصَّفِيرُ ‏{‏لِيُثْبِتُوكَ‏}‏ لِيَحْبِسُوكَ‏.‏

Narrated By Said bin Jubair : I asked Ibn 'Abbas regarding Surat-al-Anfal. He said, "It was revealed in connection with the Battle of Badr."

حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ غزوۂ بدر میں نازل ہوئی تھی۔ «الشوكة» کا معنی تلوار کی دھار۔ «مردفين‏» کا مطلب ہے ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت۔«ردفني وأردفني» یعنی میرے بعد آیا۔ «ذوقوا‏» کا معنی یہ ہے کہ عذاب برداشت کرو اور اس کا خود تجربہ کرو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔ «فيركمه‏» کے معنی ہیں اس کو جمع کرے۔ «شرد‏» کا معنی متفرق اور منتشر کرنا «جنحوا‏» کے معنی صلح وسلامتی طلب کریں۔ السلم ، السلم اور السلام ان تینوں الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں ، یعنی امن و امان اور صلح و سلامتی ۔«يثخن‏» کے معنی ہیں خون ریزی کرکے غلبہ پانا۔ مجاہد نے کہا «مكاء‏» کے معنی ہیں : اپنی انگلیوں کو منہ میں داخل کرنا۔۔ «تصدية‏» کا معنی سیٹی بجانا۔ «يثبتوك‏» کے معنی ہیں آپ کو قید کرلیں ، آپ کو روک لیں۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏{‏إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ‏}‏ قَالَ هُمْ نَفَرٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ‏.‏

Narrated By Ibn 'Abbas : Regarding the Verse: "Verily! The worst of beasts in the Sight of Allah are the deaf and the dumb... those who understand not." (8.22) (The people referred to here) were some persons from the tribe of Bani 'Abd-Addar.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: آیت «إن شر الدواب عند الله الصم البكم الذين لا يعقلون‏» بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔ بنو عبدالدار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری تھی۔

Chapter No: 2

باب ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ‏}‏

"O you who believe! Answer Allah and (His) Messenger (s.a.w) when he (s.a.w) calls you to that which will give you life, and know that Allah comes in between a man and his heart. And verily, to Him you shall (all) be gathered." (V.8:24)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اسۡتَجِیبُوا لِلہِ وَ لَرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم، وَ اعۡلَمُوا اَنَّ اللہَ یَحُولُ بَینَ المَرءِ وَ قَلبِہِ وَ اَنَّہُ اِلَیہِ تُحشَرُونَ ۔ کی تفسیر

‏{‏اسْتَجِيبُوا‏}‏ أَجِيبُوا ‏{‏لِمَا يُحْيِيكُمْ‏}‏ يُصْلِحُكُمْ‏

اسۡتَجِیبُوا کا معنی جواب دو قبول کرو لِمَایُحیِیکُم جو تم کو درست کرے

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ ‏"‏ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ‏}‏ ثُمَّ قَالَ لأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ ‏"‏‏.‏ فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيَخْرُجَ فَذَكَرْتُ لَهُ‏. وَقَالَ مُعَاذٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبٍ، سَمِعَ حَفْصًا، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ، رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِهَذَا، وَقَالَ هِيَ ‏{‏الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏}‏ السَّبْعُ الْمَثَانِي‏.‏‏

Narrated By Abu Said bin Al-Mu'alla : While I was praying, Allah's Apostle passed me and called me, but I did not go to him until I had finished the prayer. Then I went to him, and he said, "What prevented you from coming to me? Didn't Allah say: "O you who believe! Answer the call of Allah (by obeying Him) and His Apostle when He calls you?" He then said, "I will inform you of the greatest Sura in the Qur'an before I leave (the mosque)." When Allah's Apostle got ready to leave (the mosque), I reminded him. He said, "It is: 'Praise be to Allah, the Lord of the worlds.' (i.e. Surat-al-Fatiha) As-sab'a Al-Mathani (the seven repeatedly recited Verses)."

ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہﷺنے مجھے پکارا۔ میں آپﷺکی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا۔ آپﷺنے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم» کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جبکہ وہ (یعنی رسول) تم کو بلائیں۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورۃ سکھاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ معاذ نے اس حدیث کو یوں روایت کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب نے، انہوں نے حفص سے سنا اور انہوں نے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ جو نبی ﷺکے صحابی تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آپﷺ نے فرمایا: وہ (سورۃ فاتحہ) «الحمد لله رب العالمين» ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں۔

Chapter No: 3

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ}‏

The Statement of Allah, "And (remember) when they said, 'O Allah! If this (the Quran) is indeed the truth (revealed) from You, then rain down stones on us ...'" (V.8:32)

باب :اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ اِذَا قَالُوا اللّٰھُمَّ اِن کَانَ ھَذَا ھُوَ الحَقَّ الخ ۔ کی تفسیر

قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ مَا سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى مَطَرًا فِي الْقُرْآنِ إِلاَّ عَذَابًا، وَتُسَمِّيهِ الْعَرَبُ الْغَيْثَ، وَهْوَ قَوْلُهُ تَعَالَى ‏{‏يُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا‏}‏

ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا قرآن شریف میں جہاں مَطَرَ کا لفظ آیا ہے اس سے عذاب کی بارش مراد ہے۔ اور عرب لوگ بارش کو غیث کہتے ہیں۔ جیسے اس آیت میں ہے وَھُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ الغَیثَ الخ

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ ـ هُوَ ابْنُ كُرْدِيدٍ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ ـ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَبُو جَهْلٍ ‏{‏اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ‏}‏ فَنَزَلَتْ ‏{‏وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ * وَمَا لَهُمْ أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‏}‏ الآيَةَ‏.‏

Narrated By Anas bin Malik : Abu Jahl said, "O Allah! If this (Qur'an) is indeed the Truth from You, then rain down on us a shower of stones from the sky or bring on us a painful torment." So Allah revealed: "But Allah would not punish them while you were amongst them, nor He will punish them while they seek (Allah's) forgiveness..." (8.33) And why Allah should not punish them while they turn away (men) from Al-Masjid-al-Haram (the Sacred Mosque of Mecca)..." (8.33-34)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی دردناک عذاب لے آ! تو اس پر آیت «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام‏» حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کو اللہ کیوں نہ عذاب کرے جن کا حال یہ ہے کہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔ آخر آیت تک۔

Chapter No: 4

باب ‏{‏وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ‏}‏

The Statement of Allah, "And Allah would not punish them while you (Muhammad (s.a.w)) are amongst them, nor will He punish them while they seek forgiveness." (V.8:33)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَمَا کَانَ اللُہ لِیُعَذّبھُمۡ وَانتَ فیھمۡ وَمَا کَانَ اللُہ مُعذّبھُمۡ وَھُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ، صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ أَبُو جَهْلٍ ‏{‏اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ‏}‏ فَنَزَلَتْ ‏{‏وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ * وَمَا لَهُمْ أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‏}‏ الآيَةَ‏.

Narrated By Anas bin Malik : Abu Jahl said, "O Allah! If this (Qur'an) is indeed the Truth from You), then rain down on us a shower of stones from the sky or bring on us a painful punishment." So there was revealed: 'But Allah would not punish them while you (Muhammad) were amongst them, nor will He punish them while they seek (Allah's) Forgiveness. And why Allah should not punish them while they stop (men) from Al-Masjid-al-Haram...' (8.33-34)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی دردناک عذاب لے آ! تو اس پر آیت «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام‏» حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کو اللہ کیوں نہ عذاب کرے جن کا حال یہ ہے کہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔ آخر آیت تک۔

Chapter No: 5

باب ‏{‏وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌوَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ‏}‏

"And fight them until there is no more Fitnah and the Deen will be all for Allah ..." (V.8:39)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ قَاتِلُوھُم حَتّٰی لَا تَکُونَ فِتنَۃٌ الخ ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، جَاءَهُ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلاَ تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ‏{‏وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ، فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ لاَ تُقَاتِلَ كَمَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ‏.‏ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَغْتَرُّ بِهَذِهِ الآيَةِ وَلاَ أُقَاتِلُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْ أَنْ أَغْتَرَّ بِهَذِهِ الآيَةِ الَّتِي يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا‏}‏ إِلَى آخِرِهَا‏.‏ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ ‏{‏وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ‏}‏‏.‏ قَالَ ابْنُ عُمَرَ قَدْ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذْ كَانَ الإِسْلاَمُ قَلِيلاً، فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ، إِمَّا يَقْتُلُوهُ وَإِمَّا يُوثِقُوهُ، حَتَّى كَثُرَ الإِسْلاَمُ، فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ، فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُ لاَ يُوَافِقُهُ فِيمَا يُرِيدُ قَالَ فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ‏.‏ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا قَوْلِي فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ أَمَّا عُثْمَانُ فَكَانَ اللَّهُ قَدْ عَفَا عَنْهُ، فَكَرِهْتُمْ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ، وَأَمَّا عَلِيٌّ فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَخَتَنُهُ‏.‏ وَأَشَارَ بِيَدِهِ وَهَذِهِ ابْنَتُهُ أَوْ بِنْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : That a man came to him (while two groups of Muslims were fighting) and said, "O Abu 'Abdur Rahman! Don't you hear what Allah has mentioned in His Book: 'And if two groups of believers fight against each other...' (49.9) So what prevents you from fighting as Allah has mentioned in His Book?"' Ibn 'Umar said, "O son of my brother! I would rather be blamed for not fighting because of this Verse than to be blamed because of another Verse where Allah says: 'And whoever kills a believer intentionally..." (4.93) Then that man said, "Allah says: 'And fight them until there is no more afflictions (worshipping other besides Allah) and the religion (i.e. worship) will be all for Allah (Alone)" (8.39) Ibn 'Umar said, "We did this during the lifetime of Allah's Apostle when the number of Muslims was small, and a man was put to trial because of his religion, the pagans would either kill or chain him; but when the Muslims increased (and Islam spread), there was no persecution." When that man saw that Ibn 'Umar did not agree to his proposal, he said, "What is your opinion regarding 'Ali and 'Uthman?" Ibn 'Umar said, "What is my opinion regarding Ali and 'Uthman? As for 'Uthman, Allah forgave him and you disliked to forgive him, and Ali is the cousin and son-in-law of Allah's Apostle." Then he pointed out with his hand and said, "And that is his daughter's (house) which you can see."

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ان کے پاس آکر کہا: اے ابو عبد الرحمٰن! تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا‏» "اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں (تو ان میں مصالحت کرادیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو تم سب اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے)ان حالات میں آپ کو لڑائی کرنے سے کس نے روکا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " اے میرے بھتیجے ! میں اس آیت کی تاویل کرکے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اس آیت کی تاویل کروں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور جو کوئی کسی مومن کو دانستہ قتل کردے (اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا) پھر اس آدمی نے کہا: اچھا اس آیت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے : "ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم یہ کام رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں کرچکے ہیں جبکہ اس وقت اہل اسلام تھوڑے تھے اور مسلمانوں کو اسلام اختیار کرنے پر اذیت دی جاتی تھی ۔ وہ لوگ اہل ایمان کو قتل کردیتے تھے یارسیوں میں جکڑ دیتے تھے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا اور فتنوں کا خاتمہ ہوگیا۔ جب اس آدمی نے دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کے ہمنوا نہیں ہورہے تو کہنے لگا: اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے متعلق میرا کیا خیال ہوسکتا ہے ؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ہے مگر تم لوگوں کو یہ معافی پسند نہیں ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ ﷺکے چچا زاد اور آپ کے دماماد ہیں اور ہاتھ سےاشارہ کرکے بتایا یہ ان کی لخت جگر (کا گھر) ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ، أَنَّ وَبَرَةَ، حَدَّثَهُ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا أَوْ إِلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ كَيْفَ تَرَى فِي قِتَالِ الْفِتْنَةِ‏.‏ فَقَالَ وَهَلْ تَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ كَانَ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ الدُّخُولُ عَلَيْهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ كَقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ‏.‏

Narrated By Said bin Jubair : Ibn 'Umar came to us and a man said (to him), "What do you think about 'Qit-alal-Fitnah' (fighting caused by afflictions)." Ibn 'Umar said (to him), "And do you understand what an affliction is? Muhammad used to fight against the pagans, and his fighting with them was an affliction, (and his fighting was) not like your fighting which is carried on for the sake of ruling."

حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، تو ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ (مسلمانوں کے باہمی) فتنہ اور جنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تمہیں معلوم بھی ہے فتنہ کیا چیز ہے؟ حضرت محمدﷺمشرکین سے جنگ کرتے تھے اور ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ نبی ﷺکی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔

Chapter No: 6

باب ‏{‏يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ}‏الآية

"O Prophet (s.a.w)! Urge the believers to fight ..." (V.8:65)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ المُؤمِنِینَ عَلَی القِتَالِ ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ‏}‏ فَكُتِبَ عَلَيْهِمْ أَنْ لاَ يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ ـ فَقَالَ سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ أَنْ لاَ يَفِرَّ عِشْرُونَ مِنْ مِائَتَيْنِ ـ ثُمَّ نَزَلَتِ ‏{‏الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمُ‏}‏ الآيَةَ، فَكَتَبَ أَنْ لاَ يَفِرَّ مِائَةٌ مِنْ مِائَتَيْنِ ـ زَادَ سُفْيَانُ مَرَّةً ـ نَزَلَتْ ‏{‏حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ‏}‏‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ وَأُرَى الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْىَ عَنِ الْمُنْكَرِ مِثْلَ هَذَا‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : When the Verse: "If there are twenty steadfast amongst you, they will overcome two hundred." (8.65) was revealed, then it became obligatory for the Muslims that one (Muslim) should not flee from ten (non-Muslims). Sufyan (the sub-narrator) once said, "Twenty (Muslims) should not flee before two hundred (non Muslims)." Then there was revealed: 'But now Allah has lightened your (task)...' (8.66) So it became obligatory that one-hundred (Muslims) should not flee before two hundred (non-Muslims). (Once Sufyan said extra, "The Verse: 'Urge the believers to the fight. If there are twenty steadfast amongst you (Muslims)...' was revealed.) Sufyan said, "Ibn Shabrama said, "I see that this order is applicable to the obligation of enjoining good and forbidding evil."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين‏» کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں کے لیے فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ کئی مرتبہ سفیان ثوری نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «الآن خفف الله عنكم‏» اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی۔ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ سفیان ثوری نے ایک مرتبہ اس اضافہ کے ساتھ روایت بیان کی کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی «حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون‏» کہ اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو، اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔ سفیان ثوری نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شبرمہ (کوفہ کے قاضی) نےکہا: میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔

Chapter No: 7

باب ‏{‏الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضُعْفًا‏}‏ الآيَةَ

"Now that Allah has lightened your (task), for He knows that there is weakness in you ..." (V.8:66)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اَلاٰنَ خَفَّفَ اللہُ عَنکُم وَ عَلِمَ اَنَّ فِیکُم ضَعفًا ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ‏}‏ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حِينَ فُرِضَ عَلَيْهِمْ أَنْ لاَ يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَجَاءَ التَّخْفِيفُ فَقَالَ رالآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضُعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ‏}‏‏.‏ قَالَ فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خُفِّفَ عَنْهُمْ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : When the Verse: 'If there are twenty steadfast amongst you (Muslims), they will overcome two-hundred (non-Muslims).' was revealed, it became hard on the Muslims when it became compulsory that one Muslim ought not to flee (in war) before ten (non-Muslims). So (Allah) lightened the order by revealing: '(But) now Allah has lightened your (task) for He knows that there is weakness in you. So if there are of you one-hundred steadfast, they will overcome (two-hundred (non-Muslims).' (8.66) So when Allah reduced the number of enemies which Muslims should withstand, their patience and perseverance against the enemy decreased as much as their task was lightened for them.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين‏» کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں پر گراں گزری ۔اس آیت میں مسلمانوں پر یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين‏» کہ اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے ۔ تو اب اگر تم میں سو (100)صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو (200) پر غالب آ جائیں گے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے ان سے تعداد میں تخفیف کردی تو تعداد کی کمی سے اتنی ہی صبر میں بھی کمی کردی گئی۔