بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔
Chapter No: 1
باب
Chapter
باب:
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ وَالْكَهْفِ وَمَرْيَمَ إِنَّهُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الأُوَلِ، وَهُنَّ مِنْ تِلاَدِي. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ} قَالَ ابن عَبَّاسٍ :يَهُزُّونَ. وَقَالَ غَيْرُهُ نَغَضَتْ سِنُّكَ أَىْ تَحَرَّكَتْ.
Narrated By Ibn Mas'ud : Surat Bani Israel and Al-Kahf and Mary are among my first old property.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے سورہ بنی اسرائیل، سورۃ کہف اور سورہ مریم کے متعلق فرمایا: یہ اول درجہ کی عمدہ نہایت فصیح و بلیغ سورتیں ہیں اور میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔ (آیت) «فسينغضون» کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اپنے سر ہلائیں گے اور دوسروں نے کہا : یہ «نغضت سنك» سےماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہیں : تیرا دانت ہل گیا ہے۔
Chapter No: 2
باب
"And we decreed for the Childern of Israel." (V.17:4)
باب: وَقَضَٰنَا اِلَی بَنِی اِسرَائیل
{وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ}أَخْبَرْنَاهُمْ أَنَّهُمْ، سَيُفْسِدُونَ، وَالْقَضَاءُ عَلَى وُجُوهٍ {وَقَضَى رَبُّكَ} أَمَرَ رَبُّكَ، وَمِنْهُ الْحُكْمُ {إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ}، وَمِنْهُ الْخَلْقُ {فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ}. {نَفِيرًا} مَنْ يَنْفِرُ مَعَهُ. {وَلِيُتَبِّرُوا} يُدَمِّرُوا {مَا عَلَوْا}. {حَصِيرًا} مَحْبِسًا مَحْصَرًا {حَقَّ} وَجَبَ {مَيْسُورًا} لَيِّنًا. {خِطْئًا} إِثْمًا، وَهْوَ اسْمٌ مِنْ خَطِئْتُ، وَالْخَطَأُ مَفْتُوحٌ مَصْدَرُهُ مِنَ الإِثْمِ، خَطِئْتُ بِمَعْنَى أَخْطَأْتُ. {تَخْرِقَ} تَقْطَعَ. {وَإِذْ هُمْ نَجْوَى} مَصْدَرٌ مِنْ نَاجَيْتُ، فَوَصَفَهُمْ بِهَا، وَالْمَعْنَى يَتَنَاجَوْنَ {رُفَاتًا} حُطَامًا {وَاسْتَفْزِزْ} اسْتَخِفَّ {بِخَيْلِكَ} الْفُرْسَانِ، وَالرَّجْلُ الرَّجَّالَةُ وَاحِدُهَا رَاجِلٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ، وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ. {حَاصِبًا} الرِّيحُ الْعَاصِفُ، وَالْحَاصِبُ أَيْضًا مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ وَمِنْهُ {حَصَبُ جَهَنَّمَ} يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ، وَهْوَ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ حَصَبَ فِي الأَرْضِ ذَهَبَ، وَالْحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنَ الْحَصْبَاءِ وَالْحِجَارَةِ. {تَارَةً} مَرَّةً وَجَمَاعَتُهُ تِيَرَةٌ وَتَارَاتٌ {لأَحْتَنِكَنَّ} لأَسْتَأْصِلَنَّهُمْ يُقَالُ احْتَنَكَ فُلاَنٌ مَا عِنْدَ فُلاَنٍ مِنْ عِلْمٍ اسْتَقْصَاهُ. {طَائِرَهُ} حَظُّهُ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كُلُّ سُلْطَانٍ فِي الْقُرْآنِ فَهُوَ حُجَّةٌ. {وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ} لَمْ يُحَالِفْ أَحَدًا.
یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو خبر دی کہ وہ آئندہ فساد کریں گے۔ اور قضا کے کئی معنی آئے ہیں۔ وَقَضَی رَبُّکَ میں یہ معنی ہے کہ اللہ نے حکم دیا اور فیصلہ کرنے کے بھی معنوں میں ہے۔ جیسے اِنَّ رَبَّکَ یَقضِی بَینَھُم میں اور پیدا کرنے کے معنوں میں بھی ہے جیسے فَقَضَا ھُنَّ سَبع سَمٰوٰتٍ میں۔ نفیرا وہ لوگ جو آدمی کے ساتھ لڑنے کے لئے نکلیں۔ وَلِیُتَبِّرُوا یعنی جن شہروں پر غالب ہوں ان کو تباہ کریں۔ حَصِیرًا قیدخانہ، جیل۔ حَقَّ واجب ہوا، ثابت ہوا۔ مَیسُورًا نرم، ملائم۔ خَطَأ گناہ یہ اسم ہے۔ خَطِئتُ سے خَطَأ بالفتح مصدر ہے یعنی گناہ کرنا۔ خطئت بکسرطا اور اخطات دونوں کا ایک معنی ہے یعنی میں نے قصور کیا، غلطی کی۔ لَن تَخرِقَ تو زمین کو طے نہیں کرسکنے کا کیونکہ زمین بہت بڑی ہے۔ نَجوٰی مصدر ہے ناجیتُ یہ ان لوگوں کی صفت بیان کی یعنی آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ رُفَاتَا ٹوٹے، ریزی ریزہ۔ وَاستَفزِز دیوانہ کر دے، گمراہ کر دے۔ بِخَیلِکَ اپنے سواروں سے۔ رجل پیادے۔ اس کا مفرد راجل ہے جیسے صاحب کی جمع صَحب اور تاجر کی جمع تَجر ہے۔ حَاصِبًا آندھی، حاصب اس کو بھی کہتے ہیں جو ہوا اڑا کر لائے
(ری کنکر وغیرہ)۔ اسی سے ہے حَصَبُ جَھَنَّمُ یعنی جو جھنم میں ڈالا جائے گا وہی جھنم کا حصب ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں حَصَبَ فی الارضِ زمین میں گھس گیا۔ یہ حصب حصبا سے نکلا ہے۔ حصباء پتھروں (سنگریزوں) کو۔ تَارۃً ایک بار اس کی جمع تیرۃ اور تارات، لَاَحتَنِکُنَّ ان کو تباہ کر دوں گا، جڑ سے کھود ڈالوں گا۔عرب لوگ کہتے ہیں کہ احتنک فلان ما عند فلان یعنی اس کو جتنی باتیں معلوم تھیں وہ سب اس نے معلوم کر لیں۔ کوئی بات باقی نہ رہی۔ طَائرہ اس کا نصیبہ۔ ابن عباسؓ نے کہا قرآن مجید میں جہاں جہاں قرآن کا لفظ آیا ہے اس کا معنی دلیل اور حجت ہے۔ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ یعنی اس نے کسی سے اس لئے دوستی نہیں کی کہ وہ اس کو ذلت سے بچائے۔
Chapter No: 3
باب قَوْلِهِ {أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ}
The Statement of Allah, "Glorified is He (Allah) Who took His slave (Muhammad (s.a.w)) for a journey by night from Al-Masjid-al-Haram (at Makkah) to Al-Masjid-al-Aqsa (in Jerusalem) ..." (V.17:1)
باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اَسرٰی بِعَبدِہِ لَیلًا مِنَ المَسجِدِ الحَرَامِ ۔ الایہ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلِيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا فَأَخَذَ اللَّبَنَ قَالَ جِبْرِيلُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle was presented with two cups one containing wine and the other milk on the night of his night journey at Jerusalem. He looked at it and took the milk. Gabriel said, "Thanks to Allah Who guided you to the Fitra (i.e. Islam); if you had taken the wine, your followers would have gone astray.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ معراج کی رات نبی ﷺکے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبیﷺنے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھالیا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے کہا :اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَّى اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ ". زَادَ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَمِّهِ " لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ حِينَ أُسْرِيَ بِي إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ". نَحْوَهُ. {قَاصِفًا} رِيحٌ تَقْصِفُ كُلَّ شَىْءٍ.
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : The Prophet said, "When the Quraish disbelieved me (concerning my night journey), I stood up in Al-Hijr (the unroofed portion of the Ka'ba) and Allah displayed Bait-ul-Maqdis before me, and I started to inform them (Quraish) about its signs while looking at it."
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ آپﷺنے فرمایا: جب قریش نے مجھے واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں (کعبہ کے) مقام حجر میں کھڑا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا ۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ یعقوب بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا کہ ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا ابن شہاب سے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺنے فرمایا) جب مجھے قریش نے بیت المقدس کے معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا، پھر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔ «قاصفا» وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔
Chapter No: 4
باب قَوْلِهِ تَعَالَى {وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ}
The Statement of Allah, "And indeed, We have honoured the Children of Adam ..." (V.17:70)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَلَقَد کَرَّمنَا بنی آدَمَ کی تفسیر۔
كَرَّمْنَا} وَأَكْرَمْنَا وَاحِدٌ {ضِعْفَ الْحَيَاةِ} عَذَابَ الْحَيَاةِ وَعَذَابَ الْمَمَاتِ {خِلاَفَكَ} وَخَلْفَكَ سَوَاءٌ {وَنَأَى} تَبَاعَدَ {شَاكِلَتِهِ} نَاحِيَتِهِ، وَهْىَ مِنْ شَكْلِهِ {صَرَّفْنَا} وَجَّهْنَا {قَبِيلاً} مُعَايَنَةً وَمُقَابَلَةً، وَقِيلَ الْقَابِلَةُ لأَنَّهَا مُقَابِلَتُهَا وَتَقْبَلُ وَلَدَهَا {خَشْيَةَ الإِنْفَاقِ} أَنْفَقَ الرَّجُلُ أَمْلَقَ، وَنَفِقَ الشَّىْءُ ذَهَبَ {قَتُورًا} مُقَتِّرًا. {لِلأَذْقَانِ} مُجْتَمَعُ اللَّحْيَيْنِ، وَالْوَاحِدُ ذَقَنٌ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {مَوْفُورًا} وَافِرًا {تَبِيعًا} ثَائِرًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَصِيرًا. {خَبَتْ} طَفِئَتْ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {لاَ تُبَذِّرْ} لاَ تُنْفِقْ فِي الْبَاطِلِ {ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ} رِزْقٍ {مَثْبُورًا} مَلْعُونًا {لاَ تَقْفُ} لاَ تَقُلْ {فَجَاسُوا} تَيَمَّمُوا. يُزْجِي الْفُلْكَ يُجْرِي الْفُلْكَ {يَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ} لِلْوُجُوهِ.
"And when We decide to destroy a town, We (first) send a definite order (to obey Allah and be righteous) to those among them who lead a life of luxury. Then they transgress therein ..." (V.17:16)
کرَّمنا اور اکرمنا دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ ضِعفَ الحَوۃ زندگی کا عذاب اور ضعف الممات موت کا عذاب۔ خِلَافَکَ اور خَلفَکَ (دونوں قراتیں ہیں) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی تمھارے بعد نأی دور ہوا۔ شاکلۃ اپنے رستے پر (یا اپنی نیت پر) یہ شکل سے نکلا ہے (یعنی جوڑ اور شیبہ) صَرَّفنَا سامنے لائے (بیان کیئے) قَبِیلًا آنکھوں کے سامنے، روبرو۔ بعضوں نے کہا یہ قابلہ سے نکلا ہے جس کے معنی دائی (جنانے والی) کیونکہ وہ بھی جنائے وقت عورت کے مقابل ہوتی ہے۔ اس کا بچہ قبول کرتی ہی یعنی سنبھالتی ہے۔ اِنفاق مفلس ہو جانا۔ کہتے ہیں انفق رجل جب وہ مفلس ہو جائے۔ اور نَفَقَ الشَّیٔ جب کوئی چیز تمام ہو جائے۔ قَتُورًا بخیل، اَذقَان ذقن کی جمع ہے جہاں دونوں جبڑے ملتے ہیں (ٹھوڑی) مجاہد نے کہا مَوفُورًا وافر کے معنوں میں ہے یعنی پورا۔ تَبِیعًا یعنی بدلہ لینے والا اور ابن عباسؓ نے کہا مددگار۔ خَبَت بجھ جائے گی۔ اور ابن عباسؓ نے کہا لَا تُبذِر ناجائز کاموں میں اپنا پیسہ مت خرچ کر۔ اِبتِغَاءً رَحمَۃٍ روزی کی تلاش میں۔ مَثبُورا ملعون لَا تَقفُ مت کہہ۔ فَجَاسُوا قصد کیا۔ یُزجِی الفُلکِ کشتی چلاتا ہے۔ یَخِرُّونَ لِلاَذقَانِ منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ سجدہ کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كُنَّا نَقُولُ لِلْحَىِّ إِذَا كَثُرُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَمِرَ بَنُو فُلاَنٍ. حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَقَالَ أَمِرَ.
Narrated By Abdullah : During the Pre-Islamic period of ignorance if any tribe became great in number, we used to say, "Amira the children of so-and-so."
Narrated By Al-Humaidi : Sufyan narrated to us something and used the word 'Amira'.
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ «أمر بنو فلان.»(یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا)۔ ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور اس روایت میں انہوں نے بھی لفظ «أمر.» کا ذکر کیا۔
Chapter No: 5
باب {ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا}
"O offspring of those whom We carried (in the ship) with Nuh (Noah)! Verily, he was a grateful slave." (V.17:3)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول ذُرِّیَۃَ مَن حَمَلنَا مَعَ نُوحٍ اِنَّہُ کَانَ عَبدًا شَکُورًا کی تفسیر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً ثُمَّ قَالَ " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ يُجْمَعُ النَّاسُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لاَ يُطِيقُونَ وَلاَ يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ النَّاسُ أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلاَ تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ فَيَأْتُونَ آدَمَ عليه السلام فَيَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ. وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ آدَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ لَهُمْ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ ـ فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ ـ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلاَمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ عِيسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ـ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا ـ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ الأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَىَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى ".
Narrated By Abu Huraira : Some (cooked) meat was brought to Allah Apostle and the meat of a forearm was presented to him as he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know the reason for it? Allah will gather all the human being of early generations as well as late generation on one plain so that the announcer will be able to make them all-hear his voice and the watcher will be able to see all of them. The sun will come so close to the people that they will suffer such distress and trouble as they will not be able to bear or stand. Then the people will say, 'Don't you see to what state you have reached? Won't you look for someone who can intercede for you with your Lord' Some people will say to some others, 'Go to Adam.' So they will go to Adam and say to him. 'You are the father of mankind; Allah created you with His Own Hand, and breathed into you of His Spirit (meaning the spirit which he created for you); and ordered the angels to prostrate before you; so (please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are? Don't you see what condition we have reached?' Adam will say, 'Today my Lord has become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. He forbade me (to eat of the fruit of) the tree, but I disobeyed Him. Myself! Myself! Myself! (has more need for intercession). Go to someone else; go to Noah.' So they will go to Noah and say (to him), 'O Noah! You are the first (of Allah's Messengers) to the people of the earth, and Allah has named you a thankful slave; please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say.' Today my Lord has become angry as He has never become nor will ever become thereafter. I had (in the world) the right to make one definitely accepted invocation, and I made it against my nation. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Abraham.' They will go to Abraham and say, 'O Abraham! You are Allah's Apostle and His Khalil from among the people of the earth; so please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say to them, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. I had told three lies (Abu Haiyan (the sub-narrator) mentioned them in the Hadith) Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Moses.' The people will then go to Moses and say, 'O Moses! You art Allah's Apostle and Allah gave you superiority above the others with this message and with His direct Talk to you; (please) intercede for us with your Lord Don't you see in what state we are?' Moses will say, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will become thereafter, I killed a person whom I had not been ordered to kill. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Jesus.' So they will go to Jesus and say, 'O Jesus! You are Allah's Apostle and His Word which He sent to Mary, and a superior soul created by Him, and you talked to the people while still young in the cradle. Please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' Jesus will say. 'My Lord has today become angry as He has never become before nor will ever become thereafter. Jesus will not mention any sin, but will say, 'Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Muhammad.' So they will come to me and say, 'O Muhammad ! You are Allah's Apostle and the last of the prophets, and Allah forgave your early and late sins. (Please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?" The Prophet added, "Then I will go beneath Allah's Throne and fall in prostration before my Lord. And then Allah will guide me to such praises and glorification to Him as He has never guided anybody else before me. Then it will be said, 'O Muhammad Raise your head. Ask, and it will be granted. Intercede It (your intercession) will be accepted.' So I will raise my head and Say, 'My followers, O my Lord! My followers, O my Lord'. It will be said, 'O Muhammad! Let those of your followers who have no accounts, enter through such a gate of the gates of Paradise as lies on the right; and they will share the other gates with the people." The Prophet further said, "By Him in Whose Hand my soul is, the distance between every two gate-posts of Paradise is like the distance between Mecca and Busra (in Sham)."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺکی خدمت میں گوشت لایا گیا ، پھر آپﷺکو(اس میں سے ) دستی کا گوشت پیش کیا گیا ، یہ گوشت آپ کو بہت پسند تھا۔آپ نے اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر تناول فرمایا۔پھر فرمایا : میں روز قیامت تمام لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم ہے یہ کس وجہ سے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چتیل میدان میں جمع کردے گا۔ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری سفارش کرے؟ پھر لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے۔ چنانچہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور ہماری سفارش کر یں، آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کسی مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے: میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک نہیں ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔رب العزت نے مجھے درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، اس لیے مجھے اپنی فکر ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ہاں حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے شکر گزار بندہ (عبد شکور) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش کریں ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ آج مجھے اپنی فکر لاحق ہے۔ تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں حضرتابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم علیہ السلام! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری سفارش کیجئے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہوگا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ آج مجھے اپنی فکر لاحق ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری سفارش اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ آج مجھے اپنی فکر لاحق ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں حضرتعیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، اس لیے ہماری سفارش کیجئے، آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے:نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( ﷺ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( ﷺ)! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری سفارش کیجئے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں۔ نبی ﷺنے فرمایا : آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے تعریفی کلمات اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا جو اس نے مجھ سے پہلے اور کسی پر ظاہر نہیں کیے تھے ۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد ﷺ! اپنا سر اٹھائیں اور سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا۔ آپ سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے رب!میری امت کو معاف کردے ۔ اے میرے پروردگار! میری امت پر رحم فرما۔ کہا جائے گا: اے محمد ! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ۔ جنت کے دائیں دروازے سے داخل کریں۔ ویسے انہیں اختیار ہے دوسرے لوگوں کے ساتھ جس دروازے سے چاہیں داخل ہوسکتے ہیں ۔ پھر آپﷺنے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت کے دروازے کے دونوں کناروں کا اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر یا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔
Chapter No: 6
باب قَوْلِهِ {وَآتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا}
The Statement of Allah, "... And to Dawud (David) We gave the Zabur (Psalms)." (V.17:55)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ اٰتَینَا دَاودَ زَبُورًا کی تفسیر
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ الْقِرَاءَةُ، فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَابَّتِهِ لِتُسْرَجَ، فَكَانَ يَقْرَأُ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ ". يَعْنِي الْقُرْآنَ.
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "The recitation of Psalms (David's Qur'an) was made light and easy for David that he used to have his ridding animal be saddled while he would finish the recitation before the servant had saddled it."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا : داؤد علیہ السلام پر زبور کی تلاوت آسان کر دی گئی تھی۔ آپ گھوڑے پر زین رکھنے کا حکم دیتے ، پھر زین کسے جانے سے پہلے ہی اسے پڑھ لیتے تھے ۔ یعنی اللہ کی کتاب کو مکمل پڑھ لیتے تھے۔
Chapter No: 7
باب {قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ }الآية
"Say (O Muhammad (s.a.w)), 'Call upon those besides Him whom you pretend (to be gods) ...'" (V.17:56)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول قُل ادعُوا الَّذِینَ زَعَمتُم مِن دُونِہِ کی تفسیر
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، {إِلَى رَبِّهِمِ الْوَسِيلَةَ} قَالَ كَانَ نَاسٌ مِنَ الإِنْسِ يَعْبُدُونَ نَاسًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ الْجِنُّ، وَتَمَسَّكَ هَؤُلاَءِ بِدِينِهِمْ. زَادَ الأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنِ الأَعْمَشِ. {قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ}
Narrated By Abdullah : Regarding the explanation of the Verse: 'Those whom they call upon (worship) (like Jesus the Son of Mary, angels etc.) desire (for themselves) means of access to their Lord (Allah) as to which of them should be the nearer and they hope for His Mercy and fear His torment.' (17.57) They themselves (e.g. Angels, saints, Apostles, Jesus, etc.,) worshipped Allah, Those Jinns who were worshipped by some Arabs became Muslims (embraced Islam), but those human beings stuck to their (old) religion. Al-Amash said extra: 'Say, (O Muhammad): Call unto those besides Him whom you assume (to be gods).' (17.56)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے (آیت) «إلى ربهم الوسيلة» کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ لوگ جنّوں کی عبادت کرتے تھے، لیکن وہ جِن بعد میں مسلمان ہو گئے اور یہ مشرک (کم بخت)ان ہی کی پرستش کرتے جاہلی شریعت پر قائم رہے۔ عبیداللہ اشجعی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا اور ان سے اعمش نے بیان کیا، اس میں یوں ہے کہ اس آیت «قل ادعوا الذين زعمتم» کا شان نزول یہ ہے آخر تک۔
Chapter No: 8
باب قَوْلِهِ {أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمِ الْوَسِيلَةَ} الآيَةَ
His (Allah) Statement, "Those whom they call upon, desire (for themselves) means of access to their Lord (Allah) ..." (V.17:57)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول اُولٰئِکَ الَّذِینَ یَدعُونَ یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّھِمُ الوَسِیلَۃ کی تفسیر
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ فِي هَذِهِ الآيَةِ {الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمِ الْوَسِيلَةَ} قَالَ نَاسٌ مِنَ الْجِنِّ {كَانُوا} يُعْبَدُونَ فَأَسْلَمُوا.
Narrated By Abdullah : Regarding the Verse: 'Those whom they call upon (worship) (like Jesus the Son of Mary or angels etc.) desire (for themselves) means of access, to their Lord...' (17.57) (It was revealed regarding) some Jinns who used to be worshipped (by human beings). They later embraced Islam (while those people kept on worshipping them).
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے آیت «الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة» کی تفسیر میں کہا : کچھ جِن ایسے تھے جن کی آدمی پرستش کیا کرتے تھے پھر وہ جِن مسلمان ہو گئے۔
Chapter No: 9
باب {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ}
"And We made not the vision which We showed you (O Muhammad (s.a.w)), but a trial for mankind ..." (V.17:60)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ مَا جَعَلنَا الرُّؤیَا الَّتِی اَرَنَاکَ اِلَّا فِتنَۃً لِّلنَّاسِ کی تفسیر
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنه ـ {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} قَالَ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ {وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ} شَجَرَةُ الزَّقُّومِ.
Narrated By Ibn Abbas : Regarding: 'And We granted the vision (Ascension to the Heaven "Miraj") which We showed you (O Muhammad as an actual eye witness) but as a trial for mankind.' (17.60) It was an actual eye-witness which was shown to Allah's Apostle during the night he was taken on a journey (through the heavens). And the cursed tree is the tree of Az-Zaqqum (a bitter pungent tree which grows at the bottom of Hell).
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» میں «رؤيا» سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے یعنی وہ جو نبیﷺکو شب معراج میں دکھایا گیا اور «شجرة الملعونة»سے تھوہر کا درخت مراد ہے۔
Chapter No: 10
باب قَوْلِهِ {إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}
The Statement of Allah, "Verily, the recitation of the Quran in the early dawn is ever witnessed>" (V.17:78)
باب : اللہ تعالٰی کے اس قول اِنَّ قُراٰنَ الفَجرِ کَانَ مَشھُودًاِ کی تفسیر
قَالَ مُجَاهِدٌ صَلاَةَ الْفَجْرِ
Mujahid said, "(It) means the Fajr Salat."
مجاید نے کہا قرآن فجر سے مراد صبح کی نماز ہے
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رضى الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " فَضْلُ صَلاَةِ الْجَمِيعِ عَلَى صَلاَةِ الْوَاحِدِ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ دَرَجَةً، وَتَجْتَمِعُ مَلاَئِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ ". يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}
Narrated By Ibn Al-Musaiyab : Abu Huraira said, "The Prophet said, 'A prayer performed in congregation is twenty-five times more superior in reward to a prayer performed by a single person. The angels of the night and the angels of the day are assembled at the time of the Fajr (Morning) prayer." Abu Huraira added, "If you wish, you can recite: 'Verily! The recitation of the Qur'an in the early dawn (Morning prayer) is ever witnessed (attended by the angels of the day and the night).' (17.78)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے فرمایا : تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا» یعنی فجر میں قرآن کی تلاوت زیادہ کیا کرو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے۔