Chapter No: 11
باب الشُّرُوطِ فِي الطَّلاَقِ
Conditions concerning divorce.
باب : طلاق میں شرطیں لگانے کا بیان
وَقَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ وَالْحَسَنُ وَعَطَاءٌ إِنْ بَدَأَ بِالطَّلاَقِ أَوْ أَخَّرَ فَهُوَ أَحَقُّ بِشَرْطِهِ.
Ibn Musaib, Al-Hasan and Ata said, "Whether in the beginning or the end of the divorce, the conditions are to be fulfilled."
اور سعید بن مسیب اور حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح نے کہا خواہ شرط کو بعد میں بیان کرے یا پہلے ہر حال میں شرط کے موافق ہو گا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ التَّلَقِّي، وَأَنْ يَبْتَاعَ الْمُهَاجِرُ لِلأَعْرَابِيِّ، وَأَنْ تَشْتَرِطَ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا، وَأَنْ يَسْتَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ، وَنَهَى عَنِ النَّجْشِ، وَعَنِ التَّصْرِيَةِ. تَابَعَهُ مُعَاذٌ وَعَبْدُ الصَّمَدِ عَنْ شُعْبَةَ. وَقَالَ غُنْدَرٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ نُهِيَ. وَقَالَ آدَمُ نُهِينَا. وَقَالَ النَّضْرُ وَحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ نَهَى.
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle forbade: 1. The meeting of the caravan (of goods) on the way.
2. A residing person buys for a bedouin.
3. A woman stipulates the divorce of the wife of the would-be husband.
4. A man tries to cause the cancellation of a bargain concluded by another.
He also forbade An-Najsh (see Hadith 824) and that one withholds the milk in the udder of the animal so that he may deceive people on selling it.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے تجارتی قافلوں کو (منڈی پہنچنے سے قبل ) ملنے سے منع فرمایا ہے ۔اور اس سے بھی کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان تجارت بیچے اور اس سے بھی کہ کوئی عورت اپنی بہن کے طلاق کی شرط لگائے اور اس سے کہ کوئی اپنے کسی بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے ، اسی طرح آپﷺنے نجش اور تصریہ سے بھی منع فرمایا۔ محمدبن عر عرہ کے ساتھ اس حدیث کو معاذ بن معاذ اور عبد الصمد بن عبد الوارث نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے ۔ اور غندر اور عبد الرحمن بن مہدی نے یوں کہا کہ ممانعت کی گئی تھی۔ آدم بن ابی ایاس نے یوں کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ نضر اور حجاج بن منہال نے یوں کہا ہے کہ منع کیا تھا (رسو ل اللہ ﷺنے)
Chapter No: 12
باب الشُّرُوطِ مَعَ النَّاسِ بِالْقَوْلِ
Verbal conditions with the people.
باب : لوگوں سے زبانی شرط کرنا
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ حَدَّثَنِي أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ " فَذَكَرَ الْحَدِيثَ {قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا} كَانَتِ الأُولَى نِسْيَانًا، وَالْوُسْطَى شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا {قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا}. {لَقِيَا غُلاَمًا فَقَتَلَهُ} فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ. قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ.
Narrated By Ubai bin Kab : Allah's Apostle said, "Moses the Apostle of Allah," and then he narrated the whole story about him. Al-Khadir said to Moses, "Did not I tell you that you can have no patience with me." (18.72). Moses then violated the agreement for the first time because of forgetfulness, then Moses promised that if he asked Al-Khadir about anything, the latter would have the right to desert him. Moses abided by that condition and on the third occasion he intentionally asked Al-Khadir and caused that condition to be applied. The three occasions referred to above are referred to by the following Verses:
"Call me not to account for forgetting And be not hard upon me." (18.73)
"Then they met a boy and Khadir killed him." (18.74)
"Then they proceeded and found a wall which was on the verge of falling and Khadir set it up straight." (18.77)
سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: خضر سے جو جاکر ملے تھے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے ۔ پھر آخر تک حدیث بیان کی کہ خضر علیہ السلام نے موسی ٰ علیہ السلام سے کہا کیا میں آپ کو پہلے ہی نہیں بتا چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے (موسی ٰ علیہ السلام کی طرف سے) پہلا سوال تو بھول کر ہوا تھا ، بیچ کا شرط کے طورپر اور تیسرا جان بوجھ کر ہوا تھا ۔آپﷺنے خضر سے کہا تھا کہ "میں جس کو بھول گیا آپ اس میں مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے اور نہ میرا کام مشکل بناؤ ۔ دونوں کو ایک لڑکا ملا ، جسے خضر علیہ السلام نے قتل کردیا، پھر وہ آگے بڑھے تو انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے والی تھی لیکن خضر علیہ السلام نے اسے درست کردیا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "وراہم ملک " کے بجائے "امامہم ملک " پڑھا ہے۔
Chapter No: 13
باب الشُّرُوطِ فِي الْوَلاَءِ
Conditions for Wala.
باب : ولاء میں شرط لگانا
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ فَقَالَتْ كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي. فَقَالَتْ إِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ، وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي فَعَلْتُ. فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ لَهُمْ، فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ، فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ الْوَلاَءُ لَهُمْ. فَسَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلاَءَ، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ". فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ " مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهْوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ".
Narrated By Urwa : 'Aisha said, "Buraira came to me and said, 'My people (masters) have written the contract for my emancipation for nine Awaq) of gold) to be paid in yearly instalments, one Uqiyya per year; so help me." 'Aisha said (to her), "If your masters agree, I will pay them the whole sum provided the Wala will be for me." Buraira went to her masters and told them about it, but they refused the offer and she returned from them while Allah's Apostles was sitting. She said, "I presented the offer to them, but they refused unless the Wala' would be for them." When the Prophet heard that and 'Aisha told him about It, he said to her, "Buy Buraira and let them stipulate that her Wala' will be for them, as the Wala' is for the manumitted." 'Aisha did so. After that Allah's Apostle got up amidst the people, Glorified and Praised Allah and said, "What is wrong with some people who stipulate things which are not in Allah's Laws? Any condition which is not in Allah's Laws is invalid even if there were a hundred such conditions. Allah's Rules are the most valid and Allah's Conditions are the most solid. The Wala is for the manumitted."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبیت کرلی ہے ،ہر سال ایک اوقیہ دینا ہوگا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دام انہیں اتنی قیمت ادا کرسکتی ہوں ۔ لیکن تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہوگی۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کےلیے انکار کیا۔جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسو ل اللہ ﷺبھی تشریف فرماتھے ۔ انہوں نے کہا : کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کے ساتھ قائم رہے گی ۔ نبی ﷺنے بھی یہ بات سنی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺکو صورت حال سے آگاہ کیا ۔آپﷺنے فرمایا: تم انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے جو آزاد کرے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ ﷺصحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ کتاب اللہ میں نہیں ہے ، ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں ، اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔
Chapter No: 14
باب إِذَا اشْتَرَطَ فِي الْمُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ
If the landlord stipulates in the contract of share-cropping that he would terminate the contract whenever he likes.
باب : اگر زمین کا مالک مزارعت میں یہ شرط لگائے کہ جب چاہے کا شتکار کو بے دخل کر دے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو غَسَّانَ الْكِنَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ " نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ ". وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلاَهُ، وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرُهُمْ، هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهَمَتُنَا، وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلاَءَهُمْ، فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الْحُقَيْقِ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَعَامَلَنَا عَلَى الأَمْوَالِ، وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا فَقَالَ عُمَرُ أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ، لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ ". فَقَالَ كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي الْقَاسِمِ. قَالَ كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ. فَأَجْلاَهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالاً وَإِبِلاً وَعُرُوضًا، مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ. رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَحْسِبُهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، اخْتَصَرَهُ.
Narrated By Ibn Umar : When the people of Khaibar dislocated Abdullah bin Umar's hands and feet, Umar got up delivering a sermon saying, "No doubt, Allah's Apostle made a contract with the Jews concerning their properties, and said to them, 'We allow you (to stand in your land) as long as Allah allows you.' Now Abdullah bin Umar went to his land and was attacked at night, and his hands and feet were dislocated, and as we have no enemies there except those Jews, they are our enemies and the only people whom we suspect, I have made up my mind to exile them." When Umar decided to carry out his decision, a son of Abu Al-Haqiq's came and addressed 'Umar, "O chief of the believers, will you exile us although Muhammad allowed us to stay at our places, and made a contract with us about our properties, and accepted the condition of our residence in our land?" 'Umar said, "Do you think that I have forgotten the statement of Allah's Apostle, i.e.: What will your condition be when you are expelled from Khaibar and your camel will be carrying you night after night?" The Jew replied, "That was joke from Abu-l-Qasim." 'Umar said, "O the enemy of Allah! You are telling a lie." 'Umar then drove them out and paid them the price of their properties in the form of fruits, money, camel saddles and ropes, etc."
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کےلیے کھڑے ہوئے ، آپﷺنے فرمایا: رسول اللہﷺنے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپﷺنے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبد اللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مارپیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ، وہی ہمارے دشمن ہیں۔ اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کردینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کرلیا تو بنو ابی حقیق (ایک یہودی خاندان) کا ایک شخص تھا ، آیا اور کہا اے امیر المؤمنین ! کیا آپ ہمیں جلا وطن کردیں گے حالانکہ محمد ﷺنے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا ، اور ہم سے جائداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہﷺکا فرمان بھول گیا ہوں ۔ جب آپﷺنے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکالے جاؤگے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لئے پھریں گے ۔ اس نے کہا یہ تو ابو القاسم ﷺکا ایک مذاق تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے دشمن ! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کردیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت ، کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کردی۔ اس کی روایت حماد بن سلمہ نے عبید اللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے یقین ہے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبیﷺسے مختصر طور پر۔
Chapter No: 15
باب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ
The conditions of Jihad and peace treaties with warriors, and the writing of the conditions.
باب: جہاد میں شرطیں لگانا اور کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اور شرطوں کا لکھنا ۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ، يُصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدِيثَ صَاحِبِهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، حَتَّى كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ بِالْغَمِيمِ فِي خَيْلٍ لِقُرَيْشٍ طَلِيعَةً فَخُذُوا ذَاتَ الْيَمِينِ ". فَوَاللَّهِ مَا شَعَرَ بِهِمْ خَالِدٌ حَتَّى إِذَا هُمْ بِقَتَرَةِ الْجَيْشِ، فَانْطَلَقَ يَرْكُضُ نَذِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَسَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا، بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ. فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ. فَأَلَحَّتْ، فَقَالُوا خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَا خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ". ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ، قَالَ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ، عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ يَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا، فَلَمْ يُلَبِّثْهُ النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوهُ، وَشُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْعَطَشُ، فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهُ فِيهِ، فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ جَاءَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ خُزَاعَةَ، وَكَانُوا عَيْبَةَ نُصْحِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَهْلِ تِهَامَةَ، فَقَالَ إِنِّي تَرَكْتُ كَعْبَ بْنَ لُؤَىٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَىٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِيَاهِ الْحُدَيْبِيَةِ، وَمَعَهُمُ الْعُوذُ الْمَطَافِيلُ، وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ، وَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ نَهِكَتْهُمُ الْحَرْبُ، وَأَضَرَّتْ بِهِمْ، فَإِنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً، وَيُخَلُّوا بَيْنِي وَبَيْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْهَرْ فَإِنْ شَاءُوا أَنْ يَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ فَعَلُوا، وَإِلاَّ فَقَدْ جَمُّوا، وَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى أَمْرِي هَذَا حَتَّى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِي، وَلَيُنْفِذَنَّ اللَّهُ أَمْرَهُ ". فَقَالَ بُدَيْلٌ سَأُبَلِّغُهُمْ مَا تَقُولُ. قَالَ فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى قُرَيْشًا قَالَ إِنَّا قَدْ جِئْنَاكُمْ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ، وَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ قَوْلاً، فَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَعْرِضَهُ عَلَيْكُمْ فَعَلْنَا، فَقَالَ سُفَهَاؤُهُمْ لاَ حَاجَةَ لَنَا أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْهُ بِشَىْءٍ. وَقَالَ ذَوُو الرَّأْىِ مِنْهُمْ هَاتِ مَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ. قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، فَحَدَّثَهُمْ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم. فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ أَىْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا بَلَى. قَالَ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا بَلَى. قَالَ فَهَلْ تَتَّهِمُونِي. قَالُوا لاَ. قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي اسْتَنْفَرْتُ أَهْلَ عُكَاظٍ، فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَىَّ جِئْتُكُمْ بِأَهْلِي وَوَلَدِي وَمَنْ أَطَاعَنِي قَالُوا بَلَى. قَالَ فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ لَكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، اقْبَلُوهَا وَدَعُونِي آتِهِ. قَالُوا ائْتِهِ. فَأَتَاهُ فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَحْوًا مِنْ قَوْلِهِ لِبُدَيْلٍ، فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ أَىْ مُحَمَّدُ، أَرَأَيْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ وَإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى، فَإِنِّي وَاللَّهِ لأَرَى وُجُوهًا، وَإِنِّي لأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ. فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ امْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ فَقَالَ مَنْ ذَا قَالُوا أَبُو بَكْرٍ. قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلاَ يَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي لَمْ أَجْزِكَ بِهَا لأَجَبْتُكَ. قَالَ وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ لَهُ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ. فَقَالَ أَىْ غُدَرُ، أَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَتَلَهُمْ، وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَمَّا الإِسْلاَمَ فَأَقْبَلُ، وَأَمَّا الْمَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِي شَىْءٍ ". ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِعَيْنَيْهِ. قَالَ فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَىْ قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ، يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مُحَمَّدًا، وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، فَاقْبَلُوهَا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ دَعُونِي آتِهِ. فَقَالُوا ائْتِهِ. فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " هَذَا فُلاَنٌ، وَهْوَ مِنْ قَوْمٍ يُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوهَا لَهُ ". فَبُعِثَتْ لَهُ وَاسْتَقْبَلَهُ النَّاسُ يُلَبُّونَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا يَنْبَغِي لِهَؤُلاَءِ أَنْ يُصَدُّوا عَنِ الْبَيْتِ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ قَالَ رَأَيْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ، فَمَا أَرَى أَنْ يُصَدُّوا عَنِ الْبَيْتِ. فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزُ بْنُ حَفْصٍ. فَقَالَ دَعُونِي آتِهِ. فَقَالُوا ائْتِهِ. فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " هَذَا مِكْرَزٌ وَهْوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ ". فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، فَبَيْنَمَا هُوَ يُكَلِّمُهُ إِذْ جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو. قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّهُ لَمَّا جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لَقَدْ سَهُلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ ". قَالَ مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ فَجَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ هَاتِ، اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابًا، فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْكَاتِبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ". قَالَ سُهَيْلٌ أَمَّا الرَّحْمَنُ فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا هُوَ وَلَكِنِ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ. كَمَا كُنْتَ تَكْتُبُ. فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ وَاللَّهِ لاَ نَكْتُبُهَا إِلاَّ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ ". ثُمَّ قَالَ " هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ". فَقَالَ سُهَيْلٌ وَاللَّهِ لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا صَدَدْنَاكَ عَنِ الْبَيْتِ وَلاَ قَاتَلْنَاكَ، وَلَكِنِ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " وَاللَّهِ إِنِّي لَرَسُولُ اللَّهِ وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِي. اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ". قَالَ الزُّهْرِيُّ وَذَلِكَ لِقَوْلِهِ " لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ". فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " عَلَى أَنْ تُخَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَنَطُوفَ بِهِ ". فَقَالَ سُهَيْلٌ وَاللَّهِ لاَ تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضُغْطَةً وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَكَتَبَ. فَقَالَ سُهَيْلٌ وَعَلَى أَنَّهُ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ، إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا. قَالَ الْمُسْلِمُونَ سُبْحَانَ اللَّهِ كَيْفَ يُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جَاءَ مُسْلِمًا فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو يَرْسُفُ فِي قُيُودِهِ، وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ، حَتَّى رَمَى بِنَفْسِهِ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُسْلِمِينَ. فَقَالَ سُهَيْلٌ هَذَا يَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِيكَ عَلَيْهِ أَنْ تَرُدَّهُ إِلَىَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْكِتَابَ بَعْدُ ". قَالَ فَوَاللَّهِ إِذًا لَمْ أُصَالِحْكَ عَلَى شَىْءٍ أَبَدًا. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " فَأَجِزْهُ لِي ". قَالَ مَا أَنَا بِمُجِيزِهِ لَكَ. قَالَ " بَلَى، فَافْعَلْ ". قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ. قَالَ مِكْرَزٌ بَلْ قَدْ أَجَزْنَاهُ لَكَ. قَالَ أَبُو جَنْدَلٍ أَىْ مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، أُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ لَقِيتُ وَكَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِيدًا فِي اللَّهِ. قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا قَالَ " بَلَى ". قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ " بَلَى ". قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ " إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيهِ وَهْوَ نَاصِرِي ". قُلْتُ أَوَلَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ قَالَ " بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيهِ الْعَامَ ". قَالَ قُلْتُ لاَ. قَالَ " فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ ". قَالَ فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَيْسَ هَذَا نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا قَالَ بَلَى. قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ بَلَى. قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ أَيُّهَا الرَّجُلُ، إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَيْسَ يَعْصِي رَبَّهُ وَهْوَ نَاصِرُهُ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ عَلَى الْحَقِّ. قُلْتُ أَلَيْسَ كَانَ يُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ وَنَطُوفُ بِهِ قَالَ بَلَى، أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِيهِ الْعَامَ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ. قَالَ الزُّهْرِيِّ قَالَ عُمَرُ فَعَمِلْتُ لِذَلِكَ أَعْمَالاً. قَالَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأَصْحَابِهِ " قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا ". قَالَ فَوَاللَّهِ مَا قَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا لَمْ يَقُمْ مِنْهُمْ أَحَدٌ دَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ لَهَا مَا لَقِيَ مِنَ النَّاسِ. فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَتُحِبُّ ذَلِكَ اخْرُجْ ثُمَّ لاَ تُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةً حَتَّى تَنْحَرَ بُدْنَكَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ فَيَحْلِقَكَ. فَخَرَجَ فَلَمْ يُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ نَحَرَ بُدْنَهُ، وَدَعَا حَالِقَهُ فَحَلَقَهُ. فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ، قَامُوا فَنَحَرُوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَحْلِقُ بَعْضًا، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا، ثُمَّ جَاءَهُ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ} حَتَّى بَلَغَ {بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ} فَطَلَّقَ عُمَرُ يَوْمَئِذٍ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا لَهُ فِي الشِّرْكِ، فَتَزَوَّجَ إِحْدَاهُمَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَالأُخْرَى صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ، ثُمَّ رَجَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ ـ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ ـ وَهْوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ رَجُلَيْنِ، فَقَالُوا الْعَهْدَ الَّذِي جَعَلْتَ لَنَا. فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ، فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَنَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلاَنُ جَيِّدًا. فَاسْتَلَّهُ الآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَجَيِّدٌ، لَقَدْ جَرَّبْتُ بِهِ ثُمَّ جَرَّبْتُ. فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ، فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ، فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ، وَفَرَّ الآخَرُ، حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ رَآهُ " لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا ". فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ وَاللَّهِ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ، قَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ أَنْجَانِي اللَّهُ مِنْهُمْ. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " وَيْلُ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ، لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ ". فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ. قَالَ وَيَنْفَلِتُ مِنْهُمْ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، فَجَعَلَ لاَ يَخْرُجُ مِنْ قُرَيْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلاَّ لَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ، فَوَاللَّهِ مَا يَسْمَعُونَ بِعِيرٍ خَرَجَتْ لِقُرَيْشٍ إِلَى الشَّأْمِ إِلاَّ اعْتَرَضُوا لَهَا، فَقَتَلُوهُمْ، وَأَخَذُوا أَمْوَالَهُمْ، فَأَرْسَلَتْ قُرَيْشٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تُنَاشِدُهُ بِاللَّهِ وَالرَّحِمِ لَمَّا أَرْسَلَ، فَمَنْ أَتَاهُ فَهْوَ آمِنٌ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ} حَتَّى بَلَغَ {الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ} وَكَانَتْ حَمِيَّتُهُمْ أَنَّهُمْ لَمْ يُقِرُّوا أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ، وَلَمْ يُقِرُّوا بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَحَالُوا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْبَيْتِ.
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama and Marwan : (Whose narrations attest each other) Allah's Apostle set out at the time of Al-Hudaibiya (treaty), and when they proceeded for a distance, he said, "Khalid bin Al-Walid leading the cavalry of Quraish constituting the front of the army, is at a place called Al-Ghamim, so take the way on the right." By Allah, Khalid did not perceive the arrival of the Muslims till the dust arising from the march of the Muslim army reached him, and then he turned back hurriedly to inform Quraish. The Prophet went on advancing till he reached the Thaniyya (i.e. a mountainous way) through which one would go to them (i.e. people of Quraish). The she-camel of the Prophet sat down. The people tried their best to cause the she-camel to get up but in vain, so they said, "Al-Qaswa' (i.e. the she-camel's name) has become stubborn! Al-Qaswa' has become stubborn!" The Prophet said, "Al-Qaswa' has not become stubborn, for stubbornness is not her habit, but she was stopped by Him Who stopped the elephant." Then he said, "By the Name of Him in Whose Hands my soul is, if they (i.e. the Quraish infidels) ask me anything which will respect the ordinances of Allah, I will grant it to them."
The Prophet then rebuked the she-camel and she got up. The Prophet changed his way till he dismounted at the farthest end of Al-Hudaibiya at a pit (i.e. well) containing a little water which the people used in small amounts, and in a short while the people used up all its water and complained to Allah's Apostle; of thirst. The Prophet took an arrow out of his arrow-case and ordered them to put the arrow in that pit. By Allah, the water started and continued sprouting out till all the people quenched their thirst and returned with satisfaction. While they were still in that state, Budail bin Warqa-al-Khuza'i came with some persons from his tribe Khuza'a and they were the advisers of Allah's Apostle who would keep no secret from him and were from the people of Tihama. Budail said, "I left Kab bin Luai and 'Amir bin Luai residing at the profuse water of Al-Hudaibiya and they had milch camels (or their women and children) with them, and will wage war against you, and will prevent you from visiting the Kaba." Allah's Apostle said, "We have not come to fight anyone, but to perform the 'Umra. No doubt, the war has weakened Quraish and they have suffered great losses, so if they wish, I will conclude a truce with them, during which they should refrain from interfering between me and the people (i.e. the 'Arab infidels other than Quraish), and if I have victory over those infidels, Quraish will have the option to embrace Islam as the other people do, if they wish; they will at least get strong enough to fight. But if they do not accept the truce, by Allah in Whose Hands my life is, I will fight with them defending my Cause till I get killed, but (I am sure) Allah will definitely make His Cause victorious." Budail said, "I will inform them of what you have said." So, he set off till he reached Quraish and said, "We have come from that man (i.e. Muhammad) whom we heard saying something which we will disclose to you if you should like." Some of the fools among Quraish shouted that they were not in need of this information, but the wiser among them said, "Relate what you heard him saying." Budail said, "I heard him saying so-and-so," relating what the Prophet had told him.
Urwa bin Mas'ud got up and said, "O people! Aren't you the sons? They said, "Yes." He added, "Am I not the father?" They said, "Yes." He said, "Do you mistrust me?" They said, "No." He said, "Don't you know that I invited the people of 'Ukaz for your help, and when they refused I brought my relatives and children and those who obeyed me (to help you)?" They said, "Yes." He said, "Well, this man (i.e. the Prophet) has offered you a reasonable proposal, you'd better accept it and allow me to meet him." They said, "You may meet him." So, he went to the Prophet and started talking to him. The Prophet told him almost the same as he had told Budail. Then Urwa said, "O Muhammad! Won't you feel any scruple in extirpating your relations? Have you ever heard of anyone amongst the Arabs extirpating his relatives before you? On the other hand, if the reverse should happen, (nobody will aid you, for) by Allah, I do not see (with you) dignified people, but people from various tribes who would run away leaving you alone." Hearing that, Abu Bakr abused him and said, "Do you say we would run and leave the Prophet alone?" Urwa said, "Who is that man?" They said, "He is Abu Bakr." Urwa said to Abu Bakr, "By Him in Whose Hands my life is, were it not for the favour which you did to me and which I did not compensate, I would retort on you." Urwa kept on talking to the Prophet and seizing the Prophet's beard as he was talking while Al-Mughira bin Shu'ba was standing near the head of the Prophet, holding a sword and wearing a helmet. Whenever Urwa stretched his hand towards the beard of the Prophet, Al-Mughira would hit his hand with the handle of the sword and say (to Urwa), "Remove your hand from the beard of Allah's Apostle." Urwa raised his head and asked, "Who is that?" The people said, "He is Al-Mughira bin Shu'ba." Urwa said, "O treacherous! Am I not doing my best to prevent evil consequences of your treachery?"
Before embracing Islam Al-Mughira was in the company of some people. He killed them and took their property and came (to Medina) to embrace Islam. The Prophet said (to him, "As regards your Islam, I accept it, but as for the property I do not take anything of it. (As it was taken through treason). Urwa then started looking at the Companions of the Prophet. By Allah, whenever Allah's Apostle spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet's companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them they would carry his orders immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke to him, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect. Urwa returned to his people and said, "O people! By Allah, I have been to the kings and to Caesar, Khosrau and An-Najashi, yet I have never seen any of them respected by his courtiers as much as Muhammad is respected by his companions. By Allah, if he spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet's companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them, they would carry out his order immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect." Urwa added, "No doubt, he has presented to you a good reasonable offer, so please accept it." A man from the tribe of Bani Kinana said, "Allow me to go to him," and they allowed him, and when he approached the Prophet and his companions, Allah's Apostle I said, "He is so-and-so who belongs to the tribe that respects the Budn (i.e. camels of the sacrifice). So, bring the Budn in front of him." So, the Budn were brought before him and the people received him while they were reciting Talbiya. When he saw that scene, he said, "Glorified be Allah! It is not fair to prevent these people from visiting the Ka'ba." When he returned to his people, he said, 'I saw the Budn garlanded (with coloured knotted ropes) and marked (with stabs on their backs). I do not think it is advisable to prevent them from visiting the Ka'ba." Another person called Mikraz bin Hafs got up and sought their permission to go to Muhammad, and they allowed him, too. When he approached the Muslims, the Prophet said, "Here is Mikraz and he is a vicious man." Mikraz started talking to the Prophet and as he was talking, Suhail bin Amr came.
When Suhail bin Amr came, the Prophet said, "Now the matter has become easy." Suhail said to the Prophet "Please conclude a peace treaty with us." So, the Prophet called the clerk and said to him, "Write: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful." Suhail said, "As for 'Beneficent,' by Allah, I do not know what it means. So write: By Your Name O Allah, as you used to write previously." The Muslims said, "By Allah, we will not write except: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful." The Prophet said, "Write: By Your Name O Allah." Then he dictated, "This is the peace treaty which Muhammad, Allah's Apostle has concluded." Suhail said, "By Allah, if we knew that you are Allah's Apostle we would not prevent you from visiting the Kaba, and would not fight with you. So, write: "Muhammad bin Abdullah." The Prophet said, "By Allah! I am Apostle of Allah even if you people do not believe me. Write: Muhammad bin Abdullah." (Az-Zuhri said, "The Prophet accepted all those things, as he had already said that he would accept everything they would demand if it respects the ordinance of Allah, (i.e. by letting him and his companions perform 'Umra.)" The Prophet said to Suhail, "On the condition that you allow us to visit the House (i.e. Ka'ba) so that we may perform Tawaf around it." Suhail said, "By Allah, we will not (allow you this year) so as not to give chance to the 'Arabs to say that we have yielded to you, but we will allow you next year." So, the Prophet got that written.
Then Suhail said, "We also stipulate that you should return to us whoever comes to you from us, even if he embraced your religion." The Muslims said, "Glorified be Allah! How will such a person be returned to the pagans after he has become a Muslim? While they were in this state Abu- Jandal bin Suhail bin 'Amr came from the valley of Mecca staggering with his fetters and fell down amongst the Muslims. Suhail said, "O Muhammad! This is the very first term with which we make peace with you, i.e. you shall return Abu Jandal to me." The Prophet said, "The peace treaty has not been written yet." Suhail said, "I will never allow you to keep him." The Prophet said, "Yes, do." He said, "I won't do.: Mikraz said, "We allow you (to keep him)." Abu Jandal said, "O Muslims! Will I be returned to the pagans though I have come as a Muslim? Don't you see how much I have suffered?"
Abu Jandal had been tortured severely for the Cause of Allah. Umar bin Al-Khattab said, "I went to the Prophet and said, 'Aren't you truly the Apostle of Allah?' The Prophet said, 'Yes, indeed.' I said, 'Isn't our Cause just and the cause of the enemy unjust?' He said, 'Yes.' I said, 'Then why should we be humble in our religion?' He said, 'I am Allah's Apostle and I do not disobey Him, and He will make me victorious.' I said, 'Didn't you tell us that we would go to the Ka'ba and perform Tawaf around it?' He said, 'Yes, but did I tell you that we would visit the Ka'ba this year?' I said, 'No.' He said, 'So you will visit it and perform Tawaf around it?' " Umar further said, "I went to Abu Bakr and said, 'O Abu Bakr! Isn't he truly Allah's Prophet?' He replied, 'Yes.' I said, 'Then why should we be humble in our religion?' He said, 'Indeed, he is Allah's Apostle and he does not disobey his Lord, and He will make him victorious. Adhere to him as, by Allah, he is on the right.' I said, 'Was he not telling us that we would go to the Kaba and perform Tawaf around it?' He said, 'Yes, but did he tell you that you would go to the Ka'ba this year?' I said, 'No.' He said, "You will go to Ka'ba and perform Tawaf around it." (Az-Zuhri said, " 'Umar said, 'I performed many good deeds as expiation for the improper questions I asked them.'")
When the writing of the peace treaty was concluded, Allah's Apostle said to his companions, "Get up and' slaughter your sacrifices and get your head shaved." By Allah none of them got up, and the Prophet repeated his order thrice. When none of them got up, he left them and went to Um Salama and told her of the people's attitudes towards him. Um Salama said, "O the Prophet of Allah! Do you want your order to be carried out? Go out and don't say a word to anybody till you have slaughtered your sacrifice and call your barber to shave your head." So, the Prophet went out and did not talk to anyone of them till he did that, i.e. slaughtered the sacrifice and called his barber who shaved his head. Seeing that, the companions of the Prophet got up, slaughtered their sacrifices, and started shaving the heads of one another, and there was so much rush that there was a danger of killing each other. Then some believing women came (to the Prophet); and Allah revealed the following Divine Verses:
"O you who believe, when the believing women come to you as emigrants examine them..." (60.10)
Umar then divorced two wives of his who were infidels. Later on Muawiya bin Abu Sufyan married one of them, and Safwan bin Umaya married the other. When the Prophet returned to Medina, Abu Basir, a new Muslim convert from Quraish came to him. The Infidels sent in his pursuit two men who said (to the Prophet), "Abide by the promise you gave us." So, the Prophet handed him over to them. They took him out (of the City) till they reached Dhul-Hulaifa where they dismounted to eat some dates they had with them. Abu Basir said to one of them, "By Allah, O so-and-so, I see you have a fine sword." The other drew it out (of the scabbard) and said, "By Allah, it is very fine and I have tried it many times." Abu Bair said, "Let me have a look at it."
When the other gave it to him, he hit him with it till he died, and his companion ran away till he came to Medina and entered the Mosque running. When Allah's Apostle saw him he said, "This man appears to have been frightened." When he reached the Prophet he said, "My companion has been murdered and I would have been murdered too." Abu Basir came and said, "O Allah's Apostle, by Allah, Allah has made you fulfil your obligations by your returning me to them (i.e. the Infidels), but Allah has saved me from them." The Prophet said, "Woe to his mother! what excellent war kindler he would be, should he only have supporters." When Abu Basir heard that he understood that the Prophet would return him to them again, so he set off till he reached the seashore. Abu Jandal bin Suhail got himself released from them (i.e. infidels) and joined Abu Basir. So, whenever a man from Quraish embraced Islam he would follow Abu Basir till they formed a strong group. By Allah, whenever they heard about a caravan of Quraish heading towards Sham, they stopped it and attacked and killed them (i.e. infidels) and took their properties. The people of Quraish sent a message to the Prophet requesting him for the Sake of Allah and Kith and kin to send for (i.e. Abu Basir and his companions) promising that whoever (amongst them) came to the Prophet would be secure. So the Prophet sent for them (i.e. Abu Basir's companions) and Allah I revealed the following Divine Verses:
"And it is He Who Has withheld their hands from you and your hands From them in the midst of Mecca, After He made you the victorious over them... the unbelievers had pride and haughtiness, in their hearts... the pride and haughtiness of the time of ignorance." (48.24-26) And their pride and haughtiness was that they did not confess (write in the treaty) that he (i.e. Muhammad) was the Prophet of Allah and refused to write: "In the Name of Allah, the most Beneficent, the Most Merciful," and prevented the Mushriks from visiting the Ka'ba.
حضرت عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان رضی اللہ عنہ نے ، دونوں کے بیان سے ایک دوسرے کی حدیث کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺصلح حدیبیہ کے موقع پر (مکہ ) جارہے تھے ،فرمایا: خالد بن ولید قریش کے سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کےلیے مقام غمیم میں مقیم ہے (یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے)اس لیے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ، پس اللہ کی قسم ! خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہوسکا، اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔ادھر نبی ﷺچلتے رہے یہاں تک کہ آپﷺاس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپﷺکی سواری بیٹھ گئی۔صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کےلیے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: قصواء اڑگئی ، آپﷺنے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ، اسے اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں (کے لشکر) کو مکہ میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔پھر آپﷺنے فرمایا: کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کے گھر کی بڑائی ہو تو میں ان کا مطالبہ منظور کرلوں گا، آخر آپﷺنے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبیﷺصحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد (ایک چشمہ یا گڑھا) پر جہاں پانی کم تھا، آپﷺنے پڑاؤ کیا ۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنےلگے ، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا، سب کھینچ ڈالا۔ اب رسول اللہﷺسے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپﷺنے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کردیا کہ اس گڑے میں ڈال دیں اللہ کی قسم !تیرگاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کےلیے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہوگئے ۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا ۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے اور رسول اللہﷺکے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامربن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آرہا ہوں۔جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ، ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ آپﷺسے لڑیں گے اور آپﷺکے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ ہوں گے ۔ لیکن آپﷺنے فرمایا: ہم کسی سےلڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں۔ اور واقعہ تو یہ ہے کہ (مسلسل)لڑائیوں نے قریش کو بھی کمزور کردیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کرلوں گا ، اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام (کفار مشر کین عرب) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہوجاؤں اور (اس کے بعد ) وہ چاہیں تو اس دین میں وہ بھی داخل ہوسکتے ہیں (جس میں اور تمام لوگ داخل ہوچکے ہوں گے)لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا، اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہوجاتا ، میں اس دین کےلیے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرمادے گا ۔ بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ قریش تک آپﷺکی گفتگو میں پہنچاؤں گا چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا: ہم تمہارے پاس اس شخص کے یہاں سے آرہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ، اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے ہم اسے بیان کرسکتے ہیں۔ قریش کے بے وقوفوں نے کہا : ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کردو۔انہوں نے کہا : میں نے اسے (آپﷺکو) یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے نے آپﷺسے سنا تھا، سب بیان کردیا۔ اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو اس وقت کفار کے ساتھ تھے) کھڑے ہوئے اور کہا: اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ! ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیر خواہ نہیں ہوں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ہے ۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ بر کسی قسم کی تہمت لگاسکتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کےلیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ، اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لاکر کھڑا کردیا تھا۔جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا: کیوں نہیں ۔اس کے بعد انہوں نےکہا: دیکھو اب اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ، اسے تم قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس (گفتگو) کےلیے جانے دو، سب نے کہا: آپ ضرور جائیے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺسے گفتگو شروع کی ۔ آپﷺنے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپﷺبدیل سے کہہ چکے تھے،عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا: اے محمد ﷺ!بتاؤ اگر آپﷺنے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹادیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی ، تو میں تو اللہ کی قسم! تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ پنج میل لوگ یہی کریں گے،اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے ۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بولے: امصص ببظر اللات یعنی اے جاؤ لات بت کی شرمگاہ چوس لے۔کیا ہم رسول اللہﷺکے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپﷺکو تنہا چھوڑ دیں گے ۔ عروہ نےپوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔عروہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہو ں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔بیان کیا کہ وہ نبیﷺسے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپﷺکی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبیﷺکے پاس کھڑے تھے ، تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے ۔ عروہ جب بھی نبیﷺکی داڑھی مبارک کی طرف ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی کوتہی (میان کا نچلا حصہ)کو ان کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسو ل اللہﷺکی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ لو۔ عروہ نے اپنا سر اٹھایا ، اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کرکے کہا: اے دغا باز !کیا میں نے دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا ؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کرکے ان کا مال لے لیا تھا اس کے بعد (مدینہ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے (تو رسول اللہ)کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں) لیکن آپﷺنے فرمایا تھا کہ تمہارا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں ، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا۔ پھر عروہ گھور گھر کر رسول اللہﷺکے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے ۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی !اگر کبھی رسول اللہﷺنے بلغم بھی تھوکا تو آپﷺکے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپﷺنے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپﷺوضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپﷺکے وضو کے پانی پر لڑائی ہوجائے گی ۔ جب آپﷺگفتگو کرنے لگتے تو سب پر خاموشی چھاجاتی ۔ آپﷺکی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپﷺکے ساتھ نظر بھر کر آپﷺکو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جاکر ملے تو ان سے کہا: اے لوگو! قسم اللہ کی ، میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ، قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم !میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمدﷺکے اصحاب آپﷺکی کرتے ہیں ۔ قسم اللہ کی اگر محمد ﷺنے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں پر لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپﷺنے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجالانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی ۔ آپﷺنے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپﷺکے وضو پر لڑائی ہوجائے گی۔ آپﷺنے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھاگئی۔ان کے دلوں میں آپﷺکی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپﷺکو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھل صورت رکھی ہے۔تمہیں چاہیے کہ اسے قبول کرلو۔ اس پر بنوکنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے ہاں جانے دو، لوگوں نے کہا: تم بھی جاسکتے ہو؟ جب یہ رسول اللہﷺاور آپﷺکے اصحاب کے قریب پہنچےتو آپﷺنے فرمایا: کہ یہ فلاں شخص ہے ، ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اس لیے قربانی کے جانور اس کے سامنے کردو۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کردئیے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعا مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نام کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے ہاں جانے دو۔ سب نے کہا: تم بھی جاسکتے ہو جب وہ آپﷺاور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپﷺنے فرمایا: یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص۔پھر وہ نبیﷺسے گفتگو کرنے لگا ۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا ۔ معمر نے بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی او رانہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبیﷺنے (نیک فالی کے طور پر) فرمایا: تمہارا معاملہ آسان ہوگیا۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان کی ایک تحریر لکھ لو۔ چنانچہ نبیﷺنے کاتب کو بلوایا اور فرمایا: لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے ۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو باسمک اللہم جیسے پہلے لکھا کرتے تھے ، مسلمانوں نے کہا کہ قس اللہ کی ہمیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہیے۔ لیکن آپﷺنے فرمایا: باسمک اللہم ہی لکھنے دو۔پھر آپﷺنے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے۔سہیل نے کہا: اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسو ل اللہ ہیں تو نہ ہم آپﷺ کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ آپﷺتو صرف اتنا لکھئے کہ "محمد بن عبد اللہ" اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو۔ لکھو "محمد بن عبد اللہ" زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ صرف آپﷺکے اس ارشاد کا نتیجہ تھا (جو پہلے ہی آپ ﷺبدیل سے کہہ چکے تھے) کہ قریش مجھ سے جو بھی مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہوگی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا، اس لیے نبیﷺنے سہیل سے فرمایا : لیکن صلح کےلیے پہلی شرط یہ ہوگی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کےلیے جانے دوگے۔ سہیل نے کہا: قسم اللہ کی ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے کہ ہم مغلوب ہوگئے تھے ، البتہ آئندہ سال کےلیے اجازت ہے۔ چنانچہ یہ بھی لکھ لیا ۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی ہے کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ کے ہاں جائے گا خواہ وہ آپ ﷺکے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس کردیں گے۔ مسلمانوں نے (یہ شرط سن کر کہا ) سبحان اللہ ! مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جاسکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ابو جندل بن سہیل بن عمرو اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آپہنچے ، وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔ سہیل نے کہا: اے محمد ﷺ!یہ پہلا شخص ہے جس کےلیے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ ہمیں اسے واپس کردیں ۔ آپﷺنے فرمایا: ابھی تو ہم نے صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے (اس لیے جب صلح نامہ طے پاجائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہیے) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم !پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپﷺسے صلح نہیں کروں گا ۔ نبی ﷺنے فرمایا: اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کرو۔ ا س نے کہا میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کرسکتا ۔ آپﷺنے پھر فرمایا: نہیں ،تمہیں احسان کردینا چاہیے، لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا ۔ البتہ مکرز نے کہا: چلئے ہم اس کا آپ پر احسان کرتے ہیں مگر(اس کی بات نہیں چلی) ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمانو! میں مسلمان ہوکر آیا ہوں ، کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ؟ کیا میرے ساتھ جو کچھ معاملہ ہوا ہے تم نہیں دیکھتے ؟ ابو جندل رضی اللہ عنہ کو راستے میں بڑی سخت اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: آخر میں نبیﷺکے خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپﷺاللہ کے نبی ہیں ؟ آپﷺنے فرمایا: کیوں نہیں ، میں نے عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں۔ آپﷺنے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کے حکم عدولی نہیں کرسکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا: کیا آپﷺہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟ آپﷺنے فرمایا: ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا : نہیں ،آپﷺنے فرمایا: پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچوگے اور ایک دن اس کا طواف کروگے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ !کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آپﷺاللہ کے نبی ہیں ؟ انہوں نے بھی کہا کیوں نہیں ۔ میں پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: کہ پھر ہم اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جناب! بلاشک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، وہ اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کرسکتے اور رب ہی ان کا مددگا ر ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ، اللہ گوا ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔ میں نے کہا: کیا آپﷺہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے ۔ انہوں نے فرمایا: یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آپﷺنے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپﷺبیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔ میں نے کہا: نہیں ۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپﷺایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے ۔ زہری نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بعد میں میں نے اپنی اس عجلت پسندی کی مکافات کےلیے نیک اعمال کئے ۔ پھر جب صلح نامہ سے آپﷺفارغ ہوچکے تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کہ اب اٹھو اور قربانی کرلو اور سر بھی منڈوالو۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک آدمی بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپﷺنے یہ جملہ فرمایا ۔ جب کو ئی نہ اٹھا تو آپﷺ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ!کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کرلیں اور اپنے حجام کو بلالیں جو آپﷺکے بال مونڈ دے۔ چنانچہ آپﷺباہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ، اپنے جانور کی قربانی کرلی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپﷺکے بال مونڈے ۔ جب صحابہ نے دیکھا تو و بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔پھر آپﷺکے پاس چند مومن عورتیں (مکہ سے) آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا، اے لوگو!جو ایمان لاچکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئین تو ان کا امتحان لے لو۔ بعصم الکوافر تک ۔ اس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تو حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلیا تھا، اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے ۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺمدینہ تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابو بصیر رضی اللہ عنہ (مکہ سے فرار ہوکر ) حاضر ہوئے ، وہ مسلمان ہوچکے تھے ۔ قریش نے انہیں واپس لینے کےلیے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آکر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہوچکا ہے چنانچہ آپﷺنے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کردیا ۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کےلیے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔ ابو بصیر نے ان میں سے ایک سے فرمایا: قسم اللہ کی ! تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے ، دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی ۔ اس شخص نے کہا: ہاں ، اللہ کی قسم ! نہایت عمدہ تلوار ہے ، میں اس کا بارہا تجربہ کرچکا ہوں۔ ابو بصیر اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ ، اور اس طرح اپنے قبضہ میں کرلیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگا ئی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا ، اس کا دوسرا ساتھ بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا داخل ہوا نبی ﷺنے جب اسے دیکھا تو فرمایا: یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتاہے جب وہ آپﷺکے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم! میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا۔ اتنے میں ابو بصیر بھی آگئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ!اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی ، آپﷺمجھے ان کے حوالے کرچکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی ۔ آپﷺنے فرمایا: (تیری ماں کی خرابی)اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے ۔ جب انہوں نے آپﷺکے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپﷺکفار کے حوالے کردیں گے اس لیے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آگئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھروالوں سے (مکہ سے) چھوٹ کر ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی ابو بصیر سے جاملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے کے) ابو بصیر کے ہاں (ساحل سمندر پر ) چلا جاتا ۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے بارے میں بھی سن لیتے کہ وہ شام جارہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کردیتے۔اب قریش نے نبیﷺسے اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں (ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپﷺکے پاس جائے گا (مکہ سے) اسے امن ہے۔ چنانچہ آپﷺنے ان کے ہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : " او روہ ذات جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے (یعنی جنگ نہیں ہوسکی تھی) وادی مکہ میں (حدیبیہ میں) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کردیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی"۔ ان کی حمیت یہ تھی کہ انہوں نے (معاہدے میں بہی ) آپ کےلیے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھنے دیا اور آپ کے بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ، يُصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدِيثَ صَاحِبِهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، حَتَّى كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ بِالْغَمِيمِ فِي خَيْلٍ لِقُرَيْشٍ طَلِيعَةً فَخُذُوا ذَاتَ الْيَمِينِ ". فَوَاللَّهِ مَا شَعَرَ بِهِمْ خَالِدٌ حَتَّى إِذَا هُمْ بِقَتَرَةِ الْجَيْشِ، فَانْطَلَقَ يَرْكُضُ نَذِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَسَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا، بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ. فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ. فَأَلَحَّتْ، فَقَالُوا خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَا خَلأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ". ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ، قَالَ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ، عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ يَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا، فَلَمْ يُلَبِّثْهُ النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوهُ، وَشُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْعَطَشُ، فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهُ فِيهِ، فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ جَاءَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ خُزَاعَةَ، وَكَانُوا عَيْبَةَ نُصْحِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَهْلِ تِهَامَةَ، فَقَالَ إِنِّي تَرَكْتُ كَعْبَ بْنَ لُؤَىٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَىٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِيَاهِ الْحُدَيْبِيَةِ، وَمَعَهُمُ الْعُوذُ الْمَطَافِيلُ، وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ، وَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ نَهِكَتْهُمُ الْحَرْبُ، وَأَضَرَّتْ بِهِمْ، فَإِنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً، وَيُخَلُّوا بَيْنِي وَبَيْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْهَرْ فَإِنْ شَاءُوا أَنْ يَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ فَعَلُوا، وَإِلاَّ فَقَدْ جَمُّوا، وَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى أَمْرِي هَذَا حَتَّى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِي، وَلَيُنْفِذَنَّ اللَّهُ أَمْرَهُ ". فَقَالَ بُدَيْلٌ سَأُبَلِّغُهُمْ مَا تَقُولُ. قَالَ فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى قُرَيْشًا قَالَ إِنَّا قَدْ جِئْنَاكُمْ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ، وَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ قَوْلاً، فَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَعْرِضَهُ عَلَيْكُمْ فَعَلْنَا، فَقَالَ سُفَهَاؤُهُمْ لاَ حَاجَةَ لَنَا أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْهُ بِشَىْءٍ. وَقَالَ ذَوُو الرَّأْىِ مِنْهُمْ هَاتِ مَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ. قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، فَحَدَّثَهُمْ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم. فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ أَىْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا بَلَى. قَالَ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا بَلَى. قَالَ فَهَلْ تَتَّهِمُونِي. قَالُوا لاَ. قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي اسْتَنْفَرْتُ أَهْلَ عُكَاظٍ، فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَىَّ جِئْتُكُمْ بِأَهْلِي وَوَلَدِي وَمَنْ أَطَاعَنِي قَالُوا بَلَى. قَالَ فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ لَكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، اقْبَلُوهَا وَدَعُونِي آتِهِ. قَالُوا ائْتِهِ. فَأَتَاهُ فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَحْوًا مِنْ قَوْلِهِ لِبُدَيْلٍ، فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ أَىْ مُحَمَّدُ، أَرَأَيْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ وَإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى، فَإِنِّي وَاللَّهِ لأَرَى وُجُوهًا، وَإِنِّي لأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ. فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ امْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ فَقَالَ مَنْ ذَا قَالُوا أَبُو بَكْرٍ. قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلاَ يَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي لَمْ أَجْزِكَ بِهَا لأَجَبْتُكَ. قَالَ وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ لَهُ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ. فَقَالَ أَىْ غُدَرُ، أَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَتَلَهُمْ، وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَمَّا الإِسْلاَمَ فَأَقْبَلُ، وَأَمَّا الْمَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِي شَىْءٍ ". ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِعَيْنَيْهِ. قَالَ فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَىْ قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ، يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مُحَمَّدًا، وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ، فَاقْبَلُوهَا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ دَعُونِي آتِهِ. فَقَالُوا ائْتِهِ. فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " هَذَا فُلاَنٌ، وَهْوَ مِنْ قَوْمٍ يُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوهَا لَهُ ". فَبُعِثَتْ لَهُ وَاسْتَقْبَلَهُ النَّاسُ يُلَبُّونَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا يَنْبَغِي لِهَؤُلاَءِ أَنْ يُصَدُّوا عَنِ الْبَيْتِ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ قَالَ رَأَيْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ، فَمَا أَرَى أَنْ يُصَدُّوا عَنِ الْبَيْتِ. فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزُ بْنُ حَفْصٍ. فَقَالَ دَعُونِي آتِهِ. فَقَالُوا ائْتِهِ. فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " هَذَا مِكْرَزٌ وَهْوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ ". فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، فَبَيْنَمَا هُوَ يُكَلِّمُهُ إِذْ جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو. قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّهُ لَمَّا جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لَقَدْ سَهُلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ ". قَالَ مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ فَجَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ هَاتِ، اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابًا، فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْكَاتِبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ". قَالَ سُهَيْلٌ أَمَّا الرَّحْمَنُ فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا هُوَ وَلَكِنِ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ. كَمَا كُنْتَ تَكْتُبُ. فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ وَاللَّهِ لاَ نَكْتُبُهَا إِلاَّ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ ". ثُمَّ قَالَ " هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ". فَقَالَ سُهَيْلٌ وَاللَّهِ لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا صَدَدْنَاكَ عَنِ الْبَيْتِ وَلاَ قَاتَلْنَاكَ، وَلَكِنِ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " وَاللَّهِ إِنِّي لَرَسُولُ اللَّهِ وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِي. اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ". قَالَ الزُّهْرِيُّ وَذَلِكَ لِقَوْلِهِ " لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلاَّ أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ". فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " عَلَى أَنْ تُخَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَنَطُوفَ بِهِ ". فَقَالَ سُهَيْلٌ وَاللَّهِ لاَ تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضُغْطَةً وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَكَتَبَ. فَقَالَ سُهَيْلٌ وَعَلَى أَنَّهُ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ، إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا. قَالَ الْمُسْلِمُونَ سُبْحَانَ اللَّهِ كَيْفَ يُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جَاءَ مُسْلِمًا فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو يَرْسُفُ فِي قُيُودِهِ، وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ، حَتَّى رَمَى بِنَفْسِهِ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُسْلِمِينَ. فَقَالَ سُهَيْلٌ هَذَا يَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِيكَ عَلَيْهِ أَنْ تَرُدَّهُ إِلَىَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْكِتَابَ بَعْدُ ". قَالَ فَوَاللَّهِ إِذًا لَمْ أُصَالِحْكَ عَلَى شَىْءٍ أَبَدًا. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " فَأَجِزْهُ لِي ". قَالَ مَا أَنَا بِمُجِيزِهِ لَكَ. قَالَ " بَلَى، فَافْعَلْ ". قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ. قَالَ مِكْرَزٌ بَلْ قَدْ أَجَزْنَاهُ لَكَ. قَالَ أَبُو جَنْدَلٍ أَىْ مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، أُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ لَقِيتُ وَكَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِيدًا فِي اللَّهِ. قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا قَالَ " بَلَى ". قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ " بَلَى ". قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ " إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَسْتُ أَعْصِيهِ وَهْوَ نَاصِرِي ". قُلْتُ أَوَلَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ قَالَ " بَلَى، فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيهِ الْعَامَ ". قَالَ قُلْتُ لاَ. قَالَ " فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ ". قَالَ فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَيْسَ هَذَا نَبِيَّ اللَّهِ حَقًّا قَالَ بَلَى. قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ بَلَى. قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ أَيُّهَا الرَّجُلُ، إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَيْسَ يَعْصِي رَبَّهُ وَهْوَ نَاصِرُهُ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ عَلَى الْحَقِّ. قُلْتُ أَلَيْسَ كَانَ يُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ وَنَطُوفُ بِهِ قَالَ بَلَى، أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِيهِ الْعَامَ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَإِنَّكَ آتِيهِ وَمُطَّوِّفٌ بِهِ. قَالَ الزُّهْرِيِّ قَالَ عُمَرُ فَعَمِلْتُ لِذَلِكَ أَعْمَالاً. قَالَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأَصْحَابِهِ " قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا ". قَالَ فَوَاللَّهِ مَا قَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا لَمْ يَقُمْ مِنْهُمْ أَحَدٌ دَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ لَهَا مَا لَقِيَ مِنَ النَّاسِ. فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَتُحِبُّ ذَلِكَ اخْرُجْ ثُمَّ لاَ تُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةً حَتَّى تَنْحَرَ بُدْنَكَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ فَيَحْلِقَكَ. فَخَرَجَ فَلَمْ يُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ نَحَرَ بُدْنَهُ، وَدَعَا حَالِقَهُ فَحَلَقَهُ. فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ، قَامُوا فَنَحَرُوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَحْلِقُ بَعْضًا، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا، ثُمَّ جَاءَهُ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ} حَتَّى بَلَغَ {بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ} فَطَلَّقَ عُمَرُ يَوْمَئِذٍ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا لَهُ فِي الشِّرْكِ، فَتَزَوَّجَ إِحْدَاهُمَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَالأُخْرَى صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ، ثُمَّ رَجَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ ـ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ ـ وَهْوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ رَجُلَيْنِ، فَقَالُوا الْعَهْدَ الَّذِي جَعَلْتَ لَنَا. فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ، فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَنَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلاَنُ جَيِّدًا. فَاسْتَلَّهُ الآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَجَيِّدٌ، لَقَدْ جَرَّبْتُ بِهِ ثُمَّ جَرَّبْتُ. فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ، فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ، فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ، وَفَرَّ الآخَرُ، حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ رَآهُ " لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا ". فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ وَاللَّهِ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ، قَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ أَنْجَانِي اللَّهُ مِنْهُمْ. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " وَيْلُ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ، لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ ". فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ. قَالَ وَيَنْفَلِتُ مِنْهُمْ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، فَجَعَلَ لاَ يَخْرُجُ مِنْ قُرَيْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلاَّ لَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ، حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ، فَوَاللَّهِ مَا يَسْمَعُونَ بِعِيرٍ خَرَجَتْ لِقُرَيْشٍ إِلَى الشَّأْمِ إِلاَّ اعْتَرَضُوا لَهَا، فَقَتَلُوهُمْ، وَأَخَذُوا أَمْوَالَهُمْ، فَأَرْسَلَتْ قُرَيْشٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تُنَاشِدُهُ بِاللَّهِ وَالرَّحِمِ لَمَّا أَرْسَلَ، فَمَنْ أَتَاهُ فَهْوَ آمِنٌ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ} حَتَّى بَلَغَ {الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ} وَكَانَتْ حَمِيَّتُهُمْ أَنَّهُمْ لَمْ يُقِرُّوا أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ، وَلَمْ يُقِرُّوا بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَحَالُوا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْبَيْتِ.
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama and Marwan : (Whose narrations attest each other) Allah's Apostle set out at the time of Al-Hudaibiya (treaty), and when they proceeded for a distance, he said, "Khalid bin Al-Walid leading the cavalry of Quraish constituting the front of the army, is at a place called Al-Ghamim, so take the way on the right." By Allah, Khalid did not perceive the arrival of the Muslims till the dust arising from the march of the Muslim army reached him, and then he turned back hurriedly to inform Quraish. The Prophet went on advancing till he reached the Thaniyya (i.e. a mountainous way) through which one would go to them (i.e. people of Quraish). The she-camel of the Prophet sat down. The people tried their best to cause the she-camel to get up but in vain, so they said, "Al-Qaswa' (i.e. the she-camel's name) has become stubborn! Al-Qaswa' has become stubborn!" The Prophet said, "Al-Qaswa' has not become stubborn, for stubbornness is not her habit, but she was stopped by Him Who stopped the elephant." Then he said, "By the Name of Him in Whose Hands my soul is, if they (i.e. the Quraish infidels) ask me anything which will respect the ordinances of Allah, I will grant it to them."
The Prophet then rebuked the she-camel and she got up. The Prophet changed his way till he dismounted at the farthest end of Al-Hudaibiya at a pit (i.e. well) containing a little water which the people used in small amounts, and in a short while the people used up all its water and complained to Allah's Apostle; of thirst. The Prophet took an arrow out of his arrow-case and ordered them to put the arrow in that pit. By Allah, the water started and continued sprouting out till all the people quenched their thirst and returned with satisfaction. While they were still in that state, Budail bin Warqa-al-Khuza'i came with some persons from his tribe Khuza'a and they were the advisers of Allah's Apostle who would keep no secret from him and were from the people of Tihama. Budail said, "I left Kab bin Luai and 'Amir bin Luai residing at the profuse water of Al-Hudaibiya and they had milch camels (or their women and children) with them, and will wage war against you, and will prevent you from visiting the Kaba." Allah's Apostle said, "We have not come to fight anyone, but to perform the 'Umra. No doubt, the war has weakened Quraish and they have suffered great losses, so if they wish, I will conclude a truce with them, during which they should refrain from interfering between me and the people (i.e. the 'Arab infidels other than Quraish), and if I have victory over those infidels, Quraish will have the option to embrace Islam as the other people do, if they wish; they will at least get strong enough to fight. But if they do not accept the truce, by Allah in Whose Hands my life is, I will fight with them defending my Cause till I get killed, but (I am sure) Allah will definitely make His Cause victorious." Budail said, "I will inform them of what you have said." So, he set off till he reached Quraish and said, "We have come from that man (i.e. Muhammad) whom we heard saying something which we will disclose to you if you should like." Some of the fools among Quraish shouted that they were not in need of this information, but the wiser among them said, "Relate what you heard him saying." Budail said, "I heard him saying so-and-so," relating what the Prophet had told him.
Urwa bin Mas'ud got up and said, "O people! Aren't you the sons? They said, "Yes." He added, "Am I not the father?" They said, "Yes." He said, "Do you mistrust me?" They said, "No." He said, "Don't you know that I invited the people of 'Ukaz for your help, and when they refused I brought my relatives and children and those who obeyed me (to help you)?" They said, "Yes." He said, "Well, this man (i.e. the Prophet) has offered you a reasonable proposal, you'd better accept it and allow me to meet him." They said, "You may meet him." So, he went to the Prophet and started talking to him. The Prophet told him almost the same as he had told Budail. Then Urwa said, "O Muhammad! Won't you feel any scruple in extirpating your relations? Have you ever heard of anyone amongst the Arabs extirpating his relatives before you? On the other hand, if the reverse should happen, (nobody will aid you, for) by Allah, I do not see (with you) dignified people, but people from various tribes who would run away leaving you alone." Hearing that, Abu Bakr abused him and said, "Do you say we would run and leave the Prophet alone?" Urwa said, "Who is that man?" They said, "He is Abu Bakr." Urwa said to Abu Bakr, "By Him in Whose Hands my life is, were it not for the favour which you did to me and which I did not compensate, I would retort on you." Urwa kept on talking to the Prophet and seizing the Prophet's beard as he was talking while Al-Mughira bin Shu'ba was standing near the head of the Prophet, holding a sword and wearing a helmet. Whenever Urwa stretched his hand towards the beard of the Prophet, Al-Mughira would hit his hand with the handle of the sword and say (to Urwa), "Remove your hand from the beard of Allah's Apostle." Urwa raised his head and asked, "Who is that?" The people said, "He is Al-Mughira bin Shu'ba." Urwa said, "O treacherous! Am I not doing my best to prevent evil consequences of your treachery?"
Before embracing Islam Al-Mughira was in the company of some people. He killed them and took their property and came (to Medina) to embrace Islam. The Prophet said (to him, "As regards your Islam, I accept it, but as for the property I do not take anything of it. (As it was taken through treason). Urwa then started looking at the Companions of the Prophet. By Allah, whenever Allah's Apostle spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet's companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them they would carry his orders immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke to him, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect. Urwa returned to his people and said, "O people! By Allah, I have been to the kings and to Caesar, Khosrau and An-Najashi, yet I have never seen any of them respected by his courtiers as much as Muhammad is respected by his companions. By Allah, if he spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet's companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them, they would carry out his order immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect." Urwa added, "No doubt, he has presented to you a good reasonable offer, so please accept it." A man from the tribe of Bani Kinana said, "Allow me to go to him," and they allowed him, and when he approached the Prophet and his companions, Allah's Apostle I said, "He is so-and-so who belongs to the tribe that respects the Budn (i.e. camels of the sacrifice). So, bring the Budn in front of him." So, the Budn were brought before him and the people received him while they were reciting Talbiya. When he saw that scene, he said, "Glorified be Allah! It is not fair to prevent these people from visiting the Ka'ba." When he returned to his people, he said, 'I saw the Budn garlanded (with coloured knotted ropes) and marked (with stabs on their backs). I do not think it is advisable to prevent them from visiting the Ka'ba." Another person called Mikraz bin Hafs got up and sought their permission to go to Muhammad, and they allowed him, too. When he approached the Muslims, the Prophet said, "Here is Mikraz and he is a vicious man." Mikraz started talking to the Prophet and as he was talking, Suhail bin Amr came.
When Suhail bin Amr came, the Prophet said, "Now the matter has become easy." Suhail said to the Prophet "Please conclude a peace treaty with us." So, the Prophet called the clerk and said to him, "Write: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful." Suhail said, "As for 'Beneficent,' by Allah, I do not know what it means. So write: By Your Name O Allah, as you used to write previously." The Muslims said, "By Allah, we will not write except: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful." The Prophet said, "Write: By Your Name O Allah." Then he dictated, "This is the peace treaty which Muhammad, Allah's Apostle has concluded." Suhail said, "By Allah, if we knew that you are Allah's Apostle we would not prevent you from visiting the Kaba, and would not fight with you. So, write: "Muhammad bin Abdullah." The Prophet said, "By Allah! I am Apostle of Allah even if you people do not believe me. Write: Muhammad bin Abdullah." (Az-Zuhri said, "The Prophet accepted all those things, as he had already said that he would accept everything they would demand if it respects the ordinance of Allah, (i.e. by letting him and his companions perform 'Umra.)" The Prophet said to Suhail, "On the condition that you allow us to visit the House (i.e. Ka'ba) so that we may perform Tawaf around it." Suhail said, "By Allah, we will not (allow you this year) so as not to give chance to the 'Arabs to say that we have yielded to you, but we will allow you next year." So, the Prophet got that written.
Then Suhail said, "We also stipulate that you should return to us whoever comes to you from us, even if he embraced your religion." The Muslims said, "Glorified be Allah! How will such a person be returned to the pagans after he has become a Muslim? While they were in this state Abu- Jandal bin Suhail bin 'Amr came from the valley of Mecca staggering with his fetters and fell down amongst the Muslims. Suhail said, "O Muhammad! This is the very first term with which we make peace with you, i.e. you shall return Abu Jandal to me." The Prophet said, "The peace treaty has not been written yet." Suhail said, "I will never allow you to keep him." The Prophet said, "Yes, do." He said, "I won't do.: Mikraz said, "We allow you (to keep him)." Abu Jandal said, "O Muslims! Will I be returned to the pagans though I have come as a Muslim? Don't you see how much I have suffered?"
Abu Jandal had been tortured severely for the Cause of Allah. Umar bin Al-Khattab said, "I went to the Prophet and said, 'Aren't you truly the Apostle of Allah?' The Prophet said, 'Yes, indeed.' I said, 'Isn't our Cause just and the cause of the enemy unjust?' He said, 'Yes.' I said, 'Then why should we be humble in our religion?' He said, 'I am Allah's Apostle and I do not disobey Him, and He will make me victorious.' I said, 'Didn't you tell us that we would go to the Ka'ba and perform Tawaf around it?' He said, 'Yes, but did I tell you that we would visit the Ka'ba this year?' I said, 'No.' He said, 'So you will visit it and perform Tawaf around it?' " Umar further said, "I went to Abu Bakr and said, 'O Abu Bakr! Isn't he truly Allah's Prophet?' He replied, 'Yes.' I said, 'Then why should we be humble in our religion?' He said, 'Indeed, he is Allah's Apostle and he does not disobey his Lord, and He will make him victorious. Adhere to him as, by Allah, he is on the right.' I said, 'Was he not telling us that we would go to the Kaba and perform Tawaf around it?' He said, 'Yes, but did he tell you that you would go to the Ka'ba this year?' I said, 'No.' He said, "You will go to Ka'ba and perform Tawaf around it." (Az-Zuhri said, " 'Umar said, 'I performed many good deeds as expiation for the improper questions I asked them.'")
When the writing of the peace treaty was concluded, Allah's Apostle said to his companions, "Get up and' slaughter your sacrifices and get your head shaved." By Allah none of them got up, and the Prophet repeated his order thrice. When none of them got up, he left them and went to Um Salama and told her of the people's attitudes towards him. Um Salama said, "O the Prophet of Allah! Do you want your order to be carried out? Go out and don't say a word to anybody till you have slaughtered your sacrifice and call your barber to shave your head." So, the Prophet went out and did not talk to anyone of them till he did that, i.e. slaughtered the sacrifice and called his barber who shaved his head. Seeing that, the companions of the Prophet got up, slaughtered their sacrifices, and started shaving the heads of one another, and there was so much rush that there was a danger of killing each other. Then some believing women came (to the Prophet); and Allah revealed the following Divine Verses:
"O you who believe, when the believing women come to you as emigrants examine them..." (60.10)
Umar then divorced two wives of his who were infidels. Later on Muawiya bin Abu Sufyan married one of them, and Safwan bin Umaya married the other. When the Prophet returned to Medina, Abu Basir, a new Muslim convert from Quraish came to him. The Infidels sent in his pursuit two men who said (to the Prophet), "Abide by the promise you gave us." So, the Prophet handed him over to them. They took him out (of the City) till they reached Dhul-Hulaifa where they dismounted to eat some dates they had with them. Abu Basir said to one of them, "By Allah, O so-and-so, I see you have a fine sword." The other drew it out (of the scabbard) and said, "By Allah, it is very fine and I have tried it many times." Abu Bair said, "Let me have a look at it."
When the other gave it to him, he hit him with it till he died, and his companion ran away till he came to Medina and entered the Mosque running. When Allah's Apostle saw him he said, "This man appears to have been frightened." When he reached the Prophet he said, "My companion has been murdered and I would have been murdered too." Abu Basir came and said, "O Allah's Apostle, by Allah, Allah has made you fulfil your obligations by your returning me to them (i.e. the Infidels), but Allah has saved me from them." The Prophet said, "Woe to his mother! what excellent war kindler he would be, should he only have supporters." When Abu Basir heard that he understood that the Prophet would return him to them again, so he set off till he reached the seashore. Abu Jandal bin Suhail got himself released from them (i.e. infidels) and joined Abu Basir. So, whenever a man from Quraish embraced Islam he would follow Abu Basir till they formed a strong group. By Allah, whenever they heard about a caravan of Quraish heading towards Sham, they stopped it and attacked and killed them (i.e. infidels) and took their properties. The people of Quraish sent a message to the Prophet requesting him for the Sake of Allah and Kith and kin to send for (i.e. Abu Basir and his companions) promising that whoever (amongst them) came to the Prophet would be secure. So the Prophet sent for them (i.e. Abu Basir's companions) and Allah I revealed the following Divine Verses:
"And it is He Who Has withheld their hands from you and your hands From them in the midst of Mecca, After He made you the victorious over them... the unbelievers had pride and haughtiness, in their hearts... the pride and haughtiness of the time of ignorance." (48.24-26) And their pride and haughtiness was that they did not confess (write in the treaty) that he (i.e. Muhammad) was the Prophet of Allah and refused to write: "In the Name of Allah, the most Beneficent, the Most Merciful," and prevented the Mushriks from visiting the Ka'ba.
حضرت عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان رضی اللہ عنہ نے ، دونوں کے بیان سے ایک دوسرے کی حدیث کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺصلح حدیبیہ کے موقع پر (مکہ ) جارہے تھے ،فرمایا: خالد بن ولید قریش کے سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کےلیے مقام غمیم میں مقیم ہے (یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے)اس لیے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ، پس اللہ کی قسم ! خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہوسکا، اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔ادھر نبی ﷺچلتے رہے یہاں تک کہ آپﷺاس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپﷺکی سواری بیٹھ گئی۔صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کےلیے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: قصواء اڑگئی ، آپﷺنے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ، اسے اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں (کے لشکر) کو مکہ میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔پھر آپﷺنے فرمایا: کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کے گھر کی بڑائی ہو تو میں ان کا مطالبہ منظور کرلوں گا، آخر آپﷺنے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبیﷺصحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد (ایک چشمہ یا گڑھا) پر جہاں پانی کم تھا، آپﷺنے پڑاؤ کیا ۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنےلگے ، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا، سب کھینچ ڈالا۔ اب رسول اللہﷺسے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپﷺنے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کردیا کہ اس گڑے میں ڈال دیں اللہ کی قسم !تیرگاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کےلیے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہوگئے ۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا ۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے اور رسول اللہﷺکے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامربن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آرہا ہوں۔جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ، ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ آپﷺسے لڑیں گے اور آپﷺکے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ ہوں گے ۔ لیکن آپﷺنے فرمایا: ہم کسی سےلڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں۔ اور واقعہ تو یہ ہے کہ (مسلسل)لڑائیوں نے قریش کو بھی کمزور کردیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کرلوں گا ، اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام (کفار مشر کین عرب) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہوجاؤں اور (اس کے بعد ) وہ چاہیں تو اس دین میں وہ بھی داخل ہوسکتے ہیں (جس میں اور تمام لوگ داخل ہوچکے ہوں گے)لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا، اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہوجاتا ، میں اس دین کےلیے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرمادے گا ۔ بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ قریش تک آپﷺکی گفتگو میں پہنچاؤں گا چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا: ہم تمہارے پاس اس شخص کے یہاں سے آرہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ، اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے ہم اسے بیان کرسکتے ہیں۔ قریش کے بے وقوفوں نے کہا : ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کردو۔انہوں نے کہا : میں نے اسے (آپﷺکو) یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے نے آپﷺسے سنا تھا، سب بیان کردیا۔ اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو اس وقت کفار کے ساتھ تھے) کھڑے ہوئے اور کہا: اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ! ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیر خواہ نہیں ہوں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ہے ۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ بر کسی قسم کی تہمت لگاسکتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کےلیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ، اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لاکر کھڑا کردیا تھا۔جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا: کیوں نہیں ۔اس کے بعد انہوں نےکہا: دیکھو اب اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ، اسے تم قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس (گفتگو) کےلیے جانے دو، سب نے کہا: آپ ضرور جائیے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺسے گفتگو شروع کی ۔ آپﷺنے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپﷺبدیل سے کہہ چکے تھے،عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا: اے محمد ﷺ!بتاؤ اگر آپﷺنے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹادیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی ، تو میں تو اللہ کی قسم! تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ پنج میل لوگ یہی کریں گے،اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے ۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بولے: امصص ببظر اللات یعنی اے جاؤ لات بت کی شرمگاہ چوس لے۔کیا ہم رسول اللہﷺکے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپﷺکو تنہا چھوڑ دیں گے ۔ عروہ نےپوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔عروہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہو ں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔بیان کیا کہ وہ نبیﷺسے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپﷺکی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبیﷺکے پاس کھڑے تھے ، تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے ۔ عروہ جب بھی نبیﷺکی داڑھی مبارک کی طرف ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی کوتہی (میان کا نچلا حصہ)کو ان کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسو ل اللہﷺکی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ لو۔ عروہ نے اپنا سر اٹھایا ، اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کرکے کہا: اے دغا باز !کیا میں نے دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا ؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کرکے ان کا مال لے لیا تھا اس کے بعد (مدینہ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے (تو رسول اللہ)کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں) لیکن آپﷺنے فرمایا تھا کہ تمہارا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں ، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا۔ پھر عروہ گھور گھر کر رسول اللہﷺکے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے ۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی !اگر کبھی رسول اللہﷺنے بلغم بھی تھوکا تو آپﷺکے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپﷺنے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپﷺوضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپﷺکے وضو کے پانی پر لڑائی ہوجائے گی ۔ جب آپﷺگفتگو کرنے لگتے تو سب پر خاموشی چھاجاتی ۔ آپﷺکی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپﷺکے ساتھ نظر بھر کر آپﷺکو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جاکر ملے تو ان سے کہا: اے لوگو! قسم اللہ کی ، میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ، قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم !میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمدﷺکے اصحاب آپﷺکی کرتے ہیں ۔ قسم اللہ کی اگر محمد ﷺنے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں پر لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپﷺنے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجالانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی ۔ آپﷺنے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپﷺکے وضو پر لڑائی ہوجائے گی۔ آپﷺنے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھاگئی۔ان کے دلوں میں آپﷺکی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپﷺکو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھل صورت رکھی ہے۔تمہیں چاہیے کہ اسے قبول کرلو۔ اس پر بنوکنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے ہاں جانے دو، لوگوں نے کہا: تم بھی جاسکتے ہو؟ جب یہ رسول اللہﷺاور آپﷺکے اصحاب کے قریب پہنچےتو آپﷺنے فرمایا: کہ یہ فلاں شخص ہے ، ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اس لیے قربانی کے جانور اس کے سامنے کردو۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کردئیے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعا مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نام کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے ہاں جانے دو۔ سب نے کہا: تم بھی جاسکتے ہو جب وہ آپﷺاور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپﷺنے فرمایا: یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص۔پھر وہ نبیﷺسے گفتگو کرنے لگا ۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا ۔ معمر نے بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی او رانہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبیﷺنے (نیک فالی کے طور پر) فرمایا: تمہارا معاملہ آسان ہوگیا۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان کی ایک تحریر لکھ لو۔ چنانچہ نبیﷺنے کاتب کو بلوایا اور فرمایا: لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے ۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو باسمک اللہم جیسے پہلے لکھا کرتے تھے ، مسلمانوں نے کہا کہ قس اللہ کی ہمیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہیے۔ لیکن آپﷺنے فرمایا: باسمک اللہم ہی لکھنے دو۔پھر آپﷺنے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے۔سہیل نے کہا: اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسو ل اللہ ہیں تو نہ ہم آپﷺ کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ آپﷺتو صرف اتنا لکھئے کہ "محمد بن عبد اللہ" اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو۔ لکھو "محمد بن عبد اللہ" زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ صرف آپﷺکے اس ارشاد کا نتیجہ تھا (جو پہلے ہی آپ ﷺبدیل سے کہہ چکے تھے) کہ قریش مجھ سے جو بھی مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہوگی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا، اس لیے نبیﷺنے سہیل سے فرمایا : لیکن صلح کےلیے پہلی شرط یہ ہوگی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کےلیے جانے دوگے۔ سہیل نے کہا: قسم اللہ کی ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے کہ ہم مغلوب ہوگئے تھے ، البتہ آئندہ سال کےلیے اجازت ہے۔ چنانچہ یہ بھی لکھ لیا ۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی ہے کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ کے ہاں جائے گا خواہ وہ آپ ﷺکے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس کردیں گے۔ مسلمانوں نے (یہ شرط سن کر کہا ) سبحان اللہ ! مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جاسکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ابو جندل بن سہیل بن عمرو اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آپہنچے ، وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔ سہیل نے کہا: اے محمد ﷺ!یہ پہلا شخص ہے جس کےلیے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ ہمیں اسے واپس کردیں ۔ آپﷺنے فرمایا: ابھی تو ہم نے صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے (اس لیے جب صلح نامہ طے پاجائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہیے) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم !پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپﷺسے صلح نہیں کروں گا ۔ نبی ﷺنے فرمایا: اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کرو۔ ا س نے کہا میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کرسکتا ۔ آپﷺنے پھر فرمایا: نہیں ،تمہیں احسان کردینا چاہیے، لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا ۔ البتہ مکرز نے کہا: چلئے ہم اس کا آپ پر احسان کرتے ہیں مگر(اس کی بات نہیں چلی) ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمانو! میں مسلمان ہوکر آیا ہوں ، کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ؟ کیا میرے ساتھ جو کچھ معاملہ ہوا ہے تم نہیں دیکھتے ؟ ابو جندل رضی اللہ عنہ کو راستے میں بڑی سخت اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: آخر میں نبیﷺکے خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپﷺاللہ کے نبی ہیں ؟ آپﷺنے فرمایا: کیوں نہیں ، میں نے عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں۔ آپﷺنے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کے حکم عدولی نہیں کرسکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا: کیا آپﷺہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟ آپﷺنے فرمایا: ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا : نہیں ،آپﷺنے فرمایا: پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچوگے اور ایک دن اس کا طواف کروگے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ !کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آپﷺاللہ کے نبی ہیں ؟ انہوں نے بھی کہا کیوں نہیں ۔ میں پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: کہ پھر ہم اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جناب! بلاشک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، وہ اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کرسکتے اور رب ہی ان کا مددگا ر ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ، اللہ گوا ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔ میں نے کہا: کیا آپﷺہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے ۔ انہوں نے فرمایا: یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آپﷺنے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپﷺبیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔ میں نے کہا: نہیں ۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپﷺایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے ۔ زہری نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بعد میں میں نے اپنی اس عجلت پسندی کی مکافات کےلیے نیک اعمال کئے ۔ پھر جب صلح نامہ سے آپﷺفارغ ہوچکے تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کہ اب اٹھو اور قربانی کرلو اور سر بھی منڈوالو۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک آدمی بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپﷺنے یہ جملہ فرمایا ۔ جب کو ئی نہ اٹھا تو آپﷺ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ!کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کرلیں اور اپنے حجام کو بلالیں جو آپﷺکے بال مونڈ دے۔ چنانچہ آپﷺباہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ، اپنے جانور کی قربانی کرلی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپﷺکے بال مونڈے ۔ جب صحابہ نے دیکھا تو و بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔پھر آپﷺکے پاس چند مومن عورتیں (مکہ سے) آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا، اے لوگو!جو ایمان لاچکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئین تو ان کا امتحان لے لو۔ بعصم الکوافر تک ۔ اس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تو حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلیا تھا، اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے ۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺمدینہ تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابو بصیر رضی اللہ عنہ (مکہ سے فرار ہوکر ) حاضر ہوئے ، وہ مسلمان ہوچکے تھے ۔ قریش نے انہیں واپس لینے کےلیے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آکر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہوچکا ہے چنانچہ آپﷺنے ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کردیا ۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کےلیے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔ ابو بصیر نے ان میں سے ایک سے فرمایا: قسم اللہ کی ! تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے ، دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی ۔ اس شخص نے کہا: ہاں ، اللہ کی قسم ! نہایت عمدہ تلوار ہے ، میں اس کا بارہا تجربہ کرچکا ہوں۔ ابو بصیر اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ ، اور اس طرح اپنے قبضہ میں کرلیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگا ئی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا ، اس کا دوسرا ساتھ بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا داخل ہوا نبی ﷺنے جب اسے دیکھا تو فرمایا: یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتاہے جب وہ آپﷺکے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم! میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا۔ اتنے میں ابو بصیر بھی آگئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ!اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی ، آپﷺمجھے ان کے حوالے کرچکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی ۔ آپﷺنے فرمایا: (تیری ماں کی خرابی)اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے ۔ جب انہوں نے آپﷺکے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپﷺکفار کے حوالے کردیں گے اس لیے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آگئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھروالوں سے (مکہ سے) چھوٹ کر ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی ابو بصیر سے جاملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے کے) ابو بصیر کے ہاں (ساحل سمندر پر ) چلا جاتا ۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے بارے میں بھی سن لیتے کہ وہ شام جارہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کردیتے۔اب قریش نے نبیﷺسے اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں (ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپﷺکے پاس جائے گا (مکہ سے) اسے امن ہے۔ چنانچہ آپﷺنے ان کے ہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : " او روہ ذات جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے (یعنی جنگ نہیں ہوسکی تھی) وادی مکہ میں (حدیبیہ میں) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کردیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی"۔ ان کی حمیت یہ تھی کہ انہوں نے (معاہدے میں بہی ) آپ کےلیے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھنے دیا اور آپ کے بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔
وَقَالَ عُقَيْلٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدُّوا إِلَى الْمُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ، وَحَكَمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، أَنْ لاَ يُمَسِّكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ، أَنَّ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَيْنِ قَرِيبَةَ بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، وَابْنَةَ جَرْوَلٍ الْخُزَاعِيِّ، فَتَزَوَّجَ قَرِيبَةَ مُعَاوِيَةُ، وَتَزَوَّجَ الأُخْرَى أَبُو جَهْمٍ، فَلَمَّا أَبَى الْكُفَّارُ أَنْ يُقِرُّوا بِأَدَاءِ مَا أَنْفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ، أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {وَإِنْ فَاتَكُمْ شَىْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ} وَالْعَقِبُ مَا يُؤَدِّي الْمُسْلِمُونَ إِلَى مَنْ هَاجَرَتِ امْرَأَتُهُ مِنَ الْكُفَّارِ، فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى مَنْ ذَهَبَ لَهُ زَوْجٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مَا أَنْفَقَ مِنْ صَدَاقِ نِسَاءِ الْكُفَّارِ اللاَّئِي هَاجَرْنَ، وَمَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ ارْتَدَّتْ بَعْدَ إِيمَانِهَا. وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرِ بْنَ أَسِيدٍ الثَّقَفِيَّ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا فِي الْمُدَّةِ، فَكَتَبَ الأَخْنَسُ بْنُ شَرِيقٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَسْأَلُهُ أَبَا بَصِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
Narrated Az-Zuhri: Urwa said, "'Aisha told me that Allah's Apostle used to examine the women emigrants. We have been told also that when Allah revealed the order that the Muslims should return to the pagans what they had spent on their wives who emigrated (after embracing Islam) and that the Mushriks should not. keep unbelieving women as their wives, 'Umar divorced two of his wives, Qariba, the daughter of Abu Urhaiya and the daughter of Jarwal Al-Khuza'i. Later on Mu'awlya married Qariba and Abu Jahm married the other."
When the pagans refused to pay what the Muslims had spent on their wives, Allah revealed: "And if any of your wives have gone from you to the unbelievers and you have an accession (By the coming over of a woman from the other side) (Then pay to those whose wives have gone) The equivalent of what they had spent (On their Mahr)." (60.11)
So, Allah ordered that the Muslim whose wife, has gone, should be given, as a compensation of the Mahr he had given to his wife, from the Mahr of the wives of the pagans who had emigrated deserting their husbands.
We do not know any of the women emigrants who deserted Islam after embracing it. We have also been told that Abu Basir bin Asid Ath-Thaqafi came to the Prophet as a Muslim emigrant during the truce. Al-Akhnas bin Shariq wrote to the Prophet requesting him to return Abu Basir.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺعورتوں کا (جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجرت کرکے مدینہ آتی تھیں) امتحان لیتے تھے۔راوی زہری نے بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کردیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہو جو (اب مسلمان ہوکر ) ہجرت کرآئی ہیں۔اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی ۔ بعد میں قریبہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شادی کرلی تھی(کیونکہ معاویہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور دوسری بیوی سے ابو جہم نے شادی کرلی تھی۔ لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سےانکار کیا جو انہوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی "اور تمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے یہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو"یہ وہ معاوضہ تا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کرکے (مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آگئی ہو) پس اللہ نے اب یہ حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہوکر (کفار کے یہاں) چلی جائے اس کے (مہر و نفقہ کے)اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کردئیے جائیں جو ہجرت کرکے آگئی ہیں (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کرلیا ہے) اگرچہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں او رہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابو بصیر بن اسید ثقفی رضی اللہ عنہ جب نبی ﷺکی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبیﷺکو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے (ابو بصیر کی واپسی کا) مطالبہ آپ ﷺسے کیاتھا ۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی۔
Chapter No: 16
باب الشُّرُوطِ فِي الْقَرْضِ
Conditions in loans.
باب : قرض میں شرط لگا نا
وقالَ ابنُ عُمَرَ و عَطاءٌ: إذَا أجَّلَهُ في القَرض جَازَ
Ibn Umar (r.a) and Ata said, "If one lends something for a certain period, the debt is valid."
اور عبداللہ بن عمرؓ اور عطاء بن ابی رباح نے کہا اگر قرض میں مدت کرے تو یہ جائز ہے
وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رضى الله عنه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلاً سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارِ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى.
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle mentioned a person who asked an Israeli man to lend him one-thousand Dinars, and the Israeli lent him the sum for a certain fixed period.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے ایک شخص کا ذکرکیا جنہوں نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا، اور اس نے ایک مقرر مدت تک کےلیے دے دیا۔
Chapter No: 17
باب الْمُكَاتَبِ وَمَا لاَ يَحِلُّ مِنَ الشُّرُوطِ الَّتِي تُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ
Al-Mukatab (the slave who is given the writing of emancipation for a certain sum) and about the invalidity of those conditions which contradict Allah's Laws.
باب: مکاتب کا بیان اور جو شرطیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہیں ان کا جائز نہ ہونا
وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ فِي الْمُكَاتَبِ شُرُوطُهُمْ بَيْنَهُمْ. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ أَوْ عُمَرُ كُلُّ شَرْطٍ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَهْوَ بَاطِلٌ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ. وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ يُقَالُ عَنْ كِلَيْهِمَا عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ.
Jabir bin Abdullah (r.a) said regarding Al-Mukatab, "Their conditions are those which are mutually agreed upon by them." Ibn Umar or Umar said, "Any condition which is against Allah's Laws, is invalid, even if one stipulates a hundred such conditions."
اور جابر بن عبداللہ نے کہا مکاتب غلام لونڈی اور ان کے مالکوں میں جو شرطیں ہوں وہی معتبر ہوں گی اور عبداللہ بن عمرؓ یا حضرت عمرؓ نے کہا جو شرط اللہ کی کتاب کے خلاف ہو وہ باطل ہے اگر سو بار شرط لگائے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الْوَلاَءُ لِي. فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَّرْتُهُ ذَلِكَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ". ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ ".
Narrated By Amra : 'Aisha said that Buraira came to seek her help in the writing of her emancipation. 'Aisha said to her, "If you wish, I will pay your masters (your price) and the Wala' will be for me." When Allah's Apostle came, she told him about it. The Prophet said to her, "Buy her (i.e. Buraira) and manumit her, for the Wala' is for the one who manumits." Then Allah's Apostle ascended the pulpit and said, "What about those people who stipulate conditions which are not in Allah's Laws? Whoever stipulates such conditions as are not in Allah's Laws, then those conditions are invalid even if he stipulated a hundred such conditions."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا اپنی مکاتبت کے سلسلے میں ان سے مدد مانگنے آئیں تو انہوں نےکہا کہ اگر تم چاہو تمہارے مالکوں کو (پوری قیمت) دے دوں اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہوگی۔ پھر جب رسول اللہﷺتشریف لائے تو آپ سے میں نے اس کا تذکرہ کیا ، آپﷺنے فرمایا: انہیں تو خریدلے اور آزاد کردے۔ ولاء تو بہرحال اسی کے ساتھ قائم ہوگی جو آزاد کردے۔پھر رسول اللہﷺمنبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں۔جس نے بھی کوئی ایسی شرط لگائی جو اس میں نہ ہو تو خواہ ایسی سو شرطیں لگالے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھائے گا۔
Chapter No: 18
باب مَا يَجُوزُ مِنَ الاِشْتِرَاطِ وَالثُّنْيَا فِي الإِقْرَارِ وَالشُّرُوطِ الَّتِي يَتَعَارَفُهَا النَّاسُ بَيْنَهُمْ
What kinds of conditions are permissible and what is exempted from the decision and the conditions which are well-known amongst the people, and if somebody says, "One hundred minus one or two."
باب ۔ اقرار میں شرط لگانا یا استثناء کرنا جائز ہے اور ان شرطوں کا بیان جو لوگوں میں عموماً جاری ہیں (معاملات وغیرہ میں) اور اگر کوئی کہے مجھ پر فلانے کے سو درہم نکلتے ہیں مگر ایک یا دو تو ننانوے یا اٹھانوے دہم دینا ہوں گے
وَإِذَا قَالَ مِائَةٌ إِلاَّ وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَيْنِ. وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ رَجُلٌ لِكَرِيِّهِ أَدْخِلْ رِكَابَكَ، فَإِنْ لَمْ أَرْحَلْ مَعَكَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، فَلَكَ مِائَةُ دِرْهَمٍ. فَلَمْ يَخْرُجْ، فَقَالَ شُرَيْحٌ مَنْ شَرَطَ عَلَى نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَهْوَ عَلَيْهِ. وَقَالَ أَيُّوبُ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ إِنَّ رَجُلاً بَاعَ طَعَامًا وَقَالَ إِنْ لَمْ آتِكَ الأَرْبِعَاءَ فَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بَيْعٌ. فَلَمْ يَجِئْ، فَقَالَ شُرَيْحٌ لِلْمُشْتَرِي أَنْتَ أَخْلَفْتَ. فَقَضَى عَلَيْهِ
Narrated by Ibn Sirin that a man said to a hirer of animals, "Prepare your traveling animals, and if I should not go with you on such and such day, I shall pay you one hundred Dirhams," but he did not go on that day. Shuraih said, "If anyone puts a condition on himself of his own free will without being under duress, he has to abide by it."
Narrated Ayyub from Ibn Sirin that a man sold foodstuff and the buyer told the seller that if he did not come to him on Wednesday, then the deal would be cancelled and he did not turn up that day." Shuraih said to the buyer, "You have broken your promise." And gave the verdict against him.
اور عبداللہ بن عون نے ابن سیرین سے نقل کیا ایک آدمی نے ایک اونٹ والے سے کہا تو اپنے اونٹ لاکر باندھ دے اگر میں فلاں فلاں دن تک تیرے ساتھ سفر نہ کروں تو تجھ کو سو درہم دوں گا پھر اس دن تک نہ نکلا تو شریح قاضی نے یہ حکم دیا کہ جس نے خوشی سے کوئی شرط اپنے اوپر لگائی نہ زور زبردستی سے تو وہ اس کو پوری کرنا ہو گی اور ایوب سختیانی نے ابن سیرین سے نقل کیا ایک شخص نے اناج بیچا اور خریدارنے اقرار کیا اگر میں بدھ تک تیرے پاس نہ آؤ ں (اپنا مال قیمت دے کر نہ لیجاؤں) تو بیع باقی نہ رہے گی پھر وہ بدھ تک نہ آیا شریح قاضی نے خریدار کے خلاف فیصلہ کیا اور کہا تو نے اپنا وعدہ خلاف کیا
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمَا مِائَةً إِلاَّ وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "Allah has ninety-nine names, i.e. one-hundred minus one, and whoever knows them will go to Paradise."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں ۔ جو انہیں شمار کرے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
(شمار کرنے کی تشریح مختلف انداز میں کی گئی ہے : مثلا: اللہ سے دعا کرتے وقت سب نام لیے جائیں یا ان ناموں کے مطابق عملی زندگی اختیار کی جائے ، مثلا: اللہ کا نام "رزاق" ہے تو بندے کو چاہیے کہ رزق کےلیے اسی پر اعتماد کرے اور رزق حلال پر اکتفا کرے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان رکھنا مراد ہے۔)
Chapter No: 19
باب الشُّرُوطِ فِي الْوَقْفِ
Conditions in Waqf
باب ۔ وقف میں شرط لگانے کا بیان ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ أَنْبَأَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُ بِهِ قَالَ " إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا ". قَالَ فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ، وَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى، وَفِي الرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ، لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، وَيُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ. قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ سِيرِينَ فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً.
Narrated By Ibn 'Umar : Umar bin Khattab got some land in Khaibar and he went to the Prophet to consult him about it saying, "O Allah' Apostle got some land in Khaibar better than which I have never had, what do you suggest that I do with it?" The Prophet said, "If you like you can give the land as endowment and give its fruits in charity." So Umar gave it in charity as an endowment on the condition that would not be sold nor given to anybody as a present and not to be inherited, but its yield would be given in charity to the poor people, to the Kith and kin, for freeing slaves, for Allah's Cause, to the travellers and guests; and that there would be no harm if the guardian of the endowment ate from it according to his need with good intention, and fed others without storing it for the future."
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہﷺکے خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا،آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپﷺنے فرمایا: اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھ لیں اور پیداوارصدقہ کردے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کردیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا، اور نہ اس میں وراثت چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں کےلیے ، رشتہ داروں کےلیے اور غلام آزاد کرانے کےلیے ، اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کےلیے اور مہمانوں کےلیے صدقہ (وقف) کردیا ،اور اس کا متولی اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق کھائے یا کھلائے ،بشرطیکہ مال جمع کرنے کا ارادہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ابن عون نے بیان کیا کہ جب میں نےاس حدیث کا ذکر ابن سیرین سے کیا تو انہوں نے فرمایا: کہ (متولی) اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔